کارٹون
محمد شجا ع دبے پا ؤں کمر ے میں داخل ہوا ۔ کمر ے میں ہمیشہ کی طر ح ا ند ھیرا تھا۔ ایک لمحے کیلئے اسے خیال آیا کہ بتی جلائے مگر پھر اس خیال سے کہ با با کو رو شنی سے و حشت سی ہو تی ہے اس نے اپنا ارادہ تر ک کر د یا ۔ با با ہمیشہ کی طر ح چار پا ئی پر بیٹھا سر جھکا ئے ز مین کو تک ر ہا تھا ۔ کند ھوں پہ سفید سو تی چا در سر کو ڈ ھکتی ہو ئی چا ر پائی کے کنا روں کو چھو ر ہی تھی۔کمر ے میں کہنے کو ایک گہر ی خامو شی تھی مگر ما حول میں سکو ن کم ، وحشت ز یادہ تھی ، ایسی وحشت جو کسی کے مر نے سے پہلے یا فو راً بعد ہو تی ہے۔
محمد شجا ع با با کے قریب آیا اور اس کی چا ر پائی کے قر یب اکڑوں ہو کر بیٹھ گیا اور پھر اس نے آ ہستگی سے با با کے جھُریوں بھرے کا نپتے ہوئے ہا تھو ں پر اپنے دو نوں ہا تھ ر کھ دیے ۔ با با میری مد د کر و نا ! وہ آ ہستہ سے بڑ بڑا یا ۔ دیکھو نا بابا ، میں کتنا پر یشان ہوں ، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ۔ کیسی عجیب سی بیما ری مجھے لگ گئی ہے جس کا علاج کسی حکیم ، کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ۔ اور جب بھی میں کسی سے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو لو گ مجھ پہ ہنستے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے میں ان سے مذاق کر ر ہا ہوں ۔ با با مگر تم تو میرے باپ ہو نا ! تم تو مجھے بچپن سے جا نتے ہو ۔ اب تو میں بھی پچا س بر س کا ہو چلا ہوں ۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو ر ہا ہے ۔ تمھیں پتہ ہے با با ، محمدشجاع نے اپنے باپ کے کان میں سر گو شی کی ، میر ے اندر ایک کا ر ٹون ر ہتا ہے ۔ ہاں با با ایک کا ر ٹون ، جیتا جا گتا کا رٹون ، نا چتا گا تا ، اچھلتا پھا نگتا ، منہ چڑانے والا کا ر ٹون ۔ با با وہ کا ر ٹون ہو بہو میری شکل کا ہے۔ میرے جیسا ناک نقشہ ، میری ہی جیسی اد ائیں ۔ وہ اچانک مجھ میں سے نمودار ہوتا ہے ۔تمھیں پتہ ہے بابا پہلی با ر میں نے اسے کب دیکھا تھا ؟ میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا ، میرے ہا تھو ں میں تمھا ری ہی دی ہوئی تسبیح تھی جس کے دا نوں کو پڑ ھتا ہوا میں گھر آرہا تھا کہ اچانک یہ کا ر ٹون مجھ میں سے نکل کر میر ے سا منے آکھڑا ہوا اور پھر مجھے د یکھ کہ زور زور سے تا لیاں بجانے لگا ۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کی دم لمبی ہو گئی ہے اور شکل بند ر جیسی اور پھر ا یسے لگا جیسے کہہ ر ہا ہو کہ یہ ساری نمازیں پڑھ کر بھی تو مجھے بند ر جیسا لگتا ہے ۔ ہاں بابا یہ ٹھیک ہے میں ضر و ر توں اور خو ا ہشوں کا محتاج ہوں ، میں بھی مصلحتوں کا ما را ہوا انسان ہوں ، آ سا شوں کا طلبگا ر ہوں ، مجھ میں نمائش ہے ، ظاہر داری ہے ، میں غیبت بھی کرتا ہوں ، ر شوت بھی لیتا ہوں اور جو وقت پڑ ے تو دوسروں کا مال بھی کھا جاتا ہوں ۔ مگر بابا پھر میں دن رات عبا دتیں بھی تو کر تا ہوں ، اور ہاں با با تمھیں پتہ ہے جب میں روز صبح قران شریف کی تلاوت کرتا ہوں ، تو یہ کمبخت کا ر ٹون مجھ میں سے نکل کر کسی طو طے کی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور پھر مجھ سے ٹرا ٹرا کر کہتا ہے تو کتاب پڑھ کر بھی طو طے جیسا لگتا ہے کیو نکہ تو اسے طو طے ہی کی طر ح تو پڑھتا ہے اور پھر و ہ اپنی کر ہیہ آ واز سے زور زور سے دُ ہر ا تا ہے ۔ تجھے معنی مطلب سے کیا مطلب ؟تجھے معنی مطلب سے کیا مطلب ؟ اور با با جب میں ر و زے ر کھتا ہوں تو یہ کا ر ٹون میر ے پیٹ کا کیڑا بن جا تا ہے اور اندر سے میرے خالی پیٹ کو ڈھول کی طرح بجاتا ہے اور کہتا ہے جیسا دماغ ویسا پیٹ ، با با تمھیں کہو اگر میرے پڑوسی بھوکے سوتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ، میں تو روزے کی پیاس جنت میں دُودھ کی نہر و ں سے بجھانا چاہتا ہوں ۔ با با مجھے بتاؤ نا ، آخر یہ کارٹون مجھ سے کیا چاہتا ہے ، تمھیں پتہ ہے با با کل رات اس نے کیا حرکت کی ؟ کل رات یہ کہیں سے ایک تر ا ز و لے آیا اور و ہ بھی ایک پلڑے کا ۔ اور پھر مجھ سے چیخ چیخ کر کہنے لگا تیری زندگی محض ایک پنسا ری کی دوکان ہے اور پھر مجھے دیکھ کر پیٹ پکڑپکڑ کر ہنستا اور قلا بازیاں لگاتا ہوا اچانک نظروں کے سا منے سے غائب ہوگیا ۔ اور پھر یکایک ایک بھوت بن کر آ گیا اور چیخ کر کہنے لگا ۔ ترازو کے ایک پلڑے پہ تیری عبا دتیں اور دوسرا پلڑا جیسے بھوت ۔ با با مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ کچھ کہو نا با با میں کیا کروں ؟ کیسے اس کم بخت کا ر ٹون سے نجا ت پاؤں۔
اور یہ کہہ کر محمد شجاع د ھاڑے ما ر مار کر رونے لگا ۔ کچھ دیر بعد با با نے آہستہ سے اپنا سر اٹھایا ۔ محمد شجاع نے دیکھاکہ بابا کی سفید پلکوں پہ آنسوں چمک ر ہے تھے ، اس کا چہرہ جیسے کسی اندرونی کرب سے کانپ ر ہا تھا ۔ بابا نے روتے ہوئے کہا ۔ بیٹا تو مجھ سے کیا پو چھ ر ہا ہے میں تو خود بھی ایک۔۔۔ اور محمد شجاع کو ا چا نک لگا جیسے اس کے باپ کی روتی ہوئی شکل ہو بہو اس کے کا ر ٹون جیسی ہی تو ہے ۔