کینسر کیا ہے

کینسر کیا ہے     ؟

 

ہم میں سے اکثر لوگ  سر سری طور پر یہ بات سوچتے ہیں، بلکہ  میں بھی یہی سوچتی تھی کہ کینسر  آخر  ہے کیا بلا؟

  کل کسی   نشست  میں ایک ڈاکٹر صاحب سے مَیں نے یہ سوال کیا تو انھوں نے بہت آ سان زبان میں  مجھے یہ جواب دیا۔

"ہمارے خلیے جب بھی تقسیم ہوتے ہیں (اور جسم میں خلیے ہر وقت تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں) تو اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ کسی خلیے میں کاپی بنانے کے عمل کے دوران کوئی میوٹیشن ہو جائے گی یعنی ڈی این اے اپنی درست کاپی نہیں بنا پائے گا۔ ایسے میوٹیٹڈ خلیے، نارمل فنکشن نہیں کر  پاتے۔ ان میں سے اکثر یا تو خودبخود مر جاتے ہیں یا ہمارا مدافعتی نظام انہیں ختم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسی میوٹیشن ہو جائے جس سے خلیوں کا  کاپی بنانے کے میکانزم پر کنٹرول ختم ہو جائے تو پھر ایسے خلیے دھڑادھڑ اپنی کاپیاں بنانے لگتے ہیں۔ حتٰی کہ یہ خلیے ایک ٹیومر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے ٹیومرز کو ہم کینسر کہتے ہیں۔"

پھر مَیں نے پوچھا کہ کچھ حکیم یا  بابے اس حوالے سےمشہور ہوتے  ہیں کہ وہ کینسر کا علاج کرتے ہیں، ان دعووں اور خبروں میں کس قدر صداقت ہے؟

مذکورہ ڈاکٹر صاحب  نے اس سوال کا یہ جواب دیا:

"کینسر چونکہ جینیاتی میوٹیشنز کی وجہ سے ہوتا ہے اور کینسر کے خلیوں میں میوٹیشنز بہت تیزی سے ہوتی ہیں اس لیے اس بات کا امکان ہوتا ہے (اگرچہ  یہ امکان بہت کم ہوتا ہے) کہ کینسر کے خلیوں میں ایسی میوٹیشن ہو کہ کینسر کا ٹیومر کم ہونے لگے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ہمارا امیون سسٹم(مدافعاتی نظام)  کینسر کے خلیوں کو پہچاننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو   امیون سسٹم، کینسر کے خلیوں پر حملہ کر کے انہیں ختم کرنے لگتا ہے۔ بعض اوقات کوئی بیرون ی پیتھوجن ک، ینسر کے خلیوں پر حملہ کرنے لگتا ہے۔ اس مظہر کو

 spontaneous cancel regression  

کہا جاتا ہے اور اس مظہر کی سائنس دانوں کو زیادہ سمجھ نہیں ہے۔

کینسر کے دیسی علاج، جن کے بارے میں ہم بہت سنتے ہیں کہ فلاں بابے نے فلاں بوٹی سے کینسر کا علاج کر دیا۔ ایسے کیس اکا  دکا  ہی   ہوتے  ہیں اور ان میں زیادہ تر کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کینسر خود بخود ریگریشن میں چلا جاتا ہے جس کا کریڈٹ ایسے سنیاسی ، حکیم اور بابے لے جاتے ہیں۔"