بزکشی : افغانیوں کا قومی کھیل

یہ دیکھیے، حاجی محمد پہلوان ہوا میں اپنا چابک لہراتے ہوئے، اپنے سرمئی  گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتے جا رہے  ہیں۔ ،  ان کے پاس گردن کٹی بکری کی باقیات ہیں جسے انہوں نے گول تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ اپنے گول تک پہنچے اور انہوں نے جیت کے اعلان کے لیے اپنی چابک ہوا میں لہرا دی۔ یہ ہے افغانستان کے قومی کھیل، بزکشی  کا منظر۔

 

اب یہ دیکھیے شمالی صوبے سمنگان کے ایک وسیع میدان کا منظر۔ اس میدان میں فائنل مقابلے میں حصہ لینے والے تین درجن گھوڑوں کے گرد غبار کا ایک بادل  چھایا ہوا ہے۔ ادھر بزکشی  میں شریک گھڑ سواروں کو ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔

تقریباً 3,000 تماشائی، خوش ہو رہے ہیں۔ خوشی سے لبریز ، حاجی   محمد پہلوان، جنھوں نے مقابلہ جیتا ہے، ٹورنامنٹ کے  منتظمین  سے پانچ سو امریکی ڈالرز  کا انعام  وصول کرنے کے لیے آگے  بڑھ رہے ہیں، اور ان کے  ساتھی فتح کا جشن برپا کیے ہوئے ہیں۔

بزکشی فارسی الفاظ سے ماخوذ ہے۔ بز کا مطلب بکری اور کشی کے معنی  کھینچنے کے ہیں۔ ، یہ کھیل صدیوں سے وسطی ایشیا میں کھیلا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک یعنی ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور  قازقستان، سب کے اس کھیل کو کھیلنے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔

اس کھیل پر طالبان کے 1996 سے 2001 کے دور حکومت میں "غیر اخلاقی"  سمجھا جانے کی وجہ سے پابندی عائد  کر دی گئی تھی، اور اب یہ خدشہ تھا کہ اس سال اگست میں طالبان کے  اقتدار میں آ جانے  کے بعد اس قدیم کھیل کو دوبارہ روک دیا جائے گا۔

لیکن اس دفعہ، بزکشی ٹورنامنٹ کو دیکھنے کے لیے نہ صرف طالبان جنگجو نماز جمعہ کے بعد ہجوم میں  شامل ہوئے ہیں بلکہ ایک مقامی کمانڈر بھی حصہ لے  رہے  ہیں۔ سب سے بڑھ کرحاجی  محمد پہلوان ، جو بزکشی کے ایک مایا ناز کھلاڑی ہیں، کے کلب کی قیادت ایک ضلعی گورنر کر رہے ہیں۔

"میں شان و شوکت کے ساتھ جا رہا ہوں،" 29 سالہ حاجی محمد پہلوان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا۔ وہ  ابھی تک سوویت دور کا ٹینک ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے۔  دو گھنٹے کے مقابلے کے دوران ان کا  چہرہ گرد  سے  اٹ گیا تھا۔ ۔

افغانستان میں، ابتدائی سیزن کا ٹورنامنٹ سمنگان کے دارالحکومت ایبک کے بالکل باہر قرہ شباغ میں ہوتا ہے، جہاں ہندوکش کے پہاڑ وسطی ایشیائی میدان سے ملتے ہیں۔

اس بار جیسے جیسے ٹورنامنٹ شروع ہو رہا ہے، پہلے مرحلےکے فاتحین اب تک ایک ہزار افغانی    یعنی لگ بھگ گیارہ امریکی ڈالرز جیت  چکے ہیں ۔ 50 سے 60 سواروں کے ارد گرد ہجوم ایک بہت بڑا مستطیل  میدان بناتا  جا رہا ہے۔

کئی سو شائقین کے ایک بے ہنگم  گروہ کو بندوق بردار طالبان بار بار پیچھے دھکیل  رہے  ہیں، حالانکہ  جب بزکشی میں شریک  گھوڑے ان کی طرف دوڑتے ہیں تو  وہ  تیزی سے پیچھے خود ہی ہٹ جاتے ہیں۔

ان سب میں، سب سے زیادہ پرجوش 45 سالہ خستہ گل ہیں، جو اپنے پسندیدہ سوار  کی حوصلہ افزائی کے لیے گوبر سے بھری پچ پر  دوڑتے چلے جاتے ہیں اور ، دوسرے تماشائیوں کو لطیفے  سناتے جاتے ہیں۔

انہیں  ان کے انتہائی پر جوش انداز کی وجہ سے، ایک سوار سے 500 افغانی ($5.50) کا انعام ملتا ہے ۔

اسی طرح ایک  سوار کا کہنا ہے کہ اس دن کے لیے ان کی مشترکہ جیت اور بونس مجموعی طور پر تقریباً $800 ہے، جو  اس افغانستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ سے پانچ گنا زیادہ ہے، جو ایک بہت بڑے معاشی اور انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

ابھی تو افغانستان میں بزکشی کے مقابلوں  کی شروعات ہوئی ہے۔ کھلاڑی اپریل تک پورے موسم سرما میں ہر ہفتے بزکشی کھیلتے رہیں گے۔

بشکریہ الجزیرہ ویب

مترجم: فرقان احمد

متعلقہ عنوانات