بزنس ایگزیکٹو کی بی ایم ڈبلیو اور اینٹ

۔۔۔۔زندگی کی دوڑ۔۔۔

 

‏ایک BMW کار کےدروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اس کےمالک نےڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا۔

کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیےکہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے۔"

سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتےہوئے ‏نہ سمجھتےہوئےسر ہلا دیتا۔

سرگوشی سنو گے یا اینٹ سےبات سنو گے!

ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو BMWمیں دفتر سےDHAمیں واقع گھرجاتےہوئے ایک پسماندہ علاقے سےگزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا۔ اچانک اس نےایک چھوٹےبچےکو بھاگ کر سڑک کی طرف آتےدیکھا تو گاڑی آہستہ کردی۔

مگر پھر بھی ‏اس نےبچےکو کوئی چیز اچھالتےدیکھا۔  ٹھک کی آواز کےساتھ ایک اینٹ

اس کی نئی کار کےدروازے پر لگی تھی۔ اس نےفوراً بریک لگائی اور گاڑی

سےباہر نکل کر دروازہ دیکھاجس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ  چکا تھا۔

اس نےغصے سےابلتے ہوئےبھاگ کر اینٹ مارنےوالےبچےکو پکڑا اور زور

سےجھنجھوڑا:

"اندھے ہوگئے ہو

‏پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرےگا!!!"

وہ زور سےدھاڑا۔

میلی کچیلی شرٹ پہنےبچے کےچہرے پر ندامت بےچارگی کےملےجلے تاثرات تھے۔

" سائیں، مجھےکچھ نہیں پتہ کہ  مَیں اور کیا کروں؟

مَیں ہاتھ اٹھاکر بھاگتا رہا مگر کسی نےگل نئیں سنی۔" اس نےٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا

اچانک اس کی آنکھوں ‏سےآنسو ابل پڑےاور سڑک کےایک نشیبی علاقےکی جانب اشارہ کیا۔

"ادھر میرا  ابا گرا پڑاہے۔ بہت بھاری ہے مجھ سےاُٹھ نہیں رہا تھا۔ مَیں کیا کرتا سائیں؟

 

بزنس ایگزیکٹو کےچہرےپر ایک حیرانی آئی اور وہ بچےکےساتھ نشیبی علاقےکی طرف بڑھا تو دیکھا  کہ ایک معذور شخص اوندھےمنہ مٹی میں پڑا ہوا تھا۔ اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی ۔ ایسا دکھائی دےرہا تھا کہ شائد وزن کےباعث بچےسے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچےآگری ۔ ساتھ ہی پکےہوئےچاول بھی گرےہوئے تھےجو شاید باپ بیٹا کہیں سےمانگ کے لائےتھے۔

 سائیں مہربانی کرو میرےابےکو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو۔

ایگزیکٹو کےگلےمیں جیسے ‏پھندا  سا  ہی لگ گیا ۔ اسےمعاملہ سمجھ آگیا تھا۔

اپنےغصےپر ندامت محسوس ہورہی تھی ۔ اس نےاپنےسوٹ کی پروا کیے بغیر آگےبڑھ کر پوری طاقت لگا کرمعذور شخص کو اٹھایا اور ویل چیئر پربٹھا دیا۔ بچےکےباپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سےبھرا پڑا تھا۔

وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا ۔ بٹوےسےدس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سےمعذور کی جیب میں ڈال دیے۔ پھر ٹشو پیپر سےاس کی خراشوں کو صاف کیا ۔ ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لےآیا۔

بچہ ممنونیت کےآنسوؤں سےاسے دیکھتا رہا اور پھر باپ کو لے کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا۔

اسکا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتےہوئے نوجوان کو دعائیں دےرہا تھا۔

‏نوجوان نےبعد میں ایک خیراتی ادارے کےتعاون سےجھگی میں رہنےوالوں

کے لیےایک جھگی سکول کھول دیا۔

آنےوالےسالوں میں وہ بچہ بہت سےدوسرےبچوں کےساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔

وہBMWاس  بزنس ایگزیکٹو کےپاس مزید پانچ سال رہی۔  تاہم اس نےاس دوران وہ ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا۔  کبھی کوئی اس سےپوچھتا ‏ تو وہ بس یہی کہتا:

"زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیےکہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"

 ہمارا خالق  کبھی ہمارےکانوں میں سرگوشیاں کرتاہےاور کبھی ہمارےدل سےباتیں کرتاہے۔ جب ہم اس کی بات سننےسےانکار کردیتےہیں تو وہ کبھی کبھار ہماری طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے ۔