برا مان گئے
میں نے چھوڑا جو پٹاخہ تو برا مان گئے
خواب غفلت سے جگایا تو برا مان گئے
ہم کو بھی دادی کی اس چیز پہ حق حاصل تھا
کھا لیا تھوڑا سا حلوہ تو برا مان گئے
میری توہین تھی کھٹمل سے مکوڑے سے شکست
نوچنا جو پڑا تکیہ تو برا مان گئے
اب بھی باقی ہیں وہی ظلم و ستم ٹیچر کے
جو کہا لفظ اہنسا تو برا مان گئے
فیل کرتا ہی تو آیا ہوں سبھی سال مگر
اب کی ڈیڈی کو سنایا تو برا مان گئے
میں بھی سینے میں تو آخر وہی دل رکھتا ہوں
رات پکچر سے جو آیا تو برا مان گئے
جی میں آیا تھا کہ کچھ چھپ کے کما لوں شہرت
ایک ہی شعر چرایا تو برا مان گئے
کوئی مجھ سا نہ ہو محروم جہاں میں عادلؔ
حال دل جب بھی سنایا تو برا مان گئے
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
کیا ہوا میں بھی جو اچھا تو برا مان گئے