بھیک لینے عیش کی سب در بدر جاتے رہے
بھیک لینے عیش کی سب در بدر جاتے رہے
میرے جیسے منچلے خوشیوں کو ٹھکراتے رہے
کتنی عبرت ناک تھی احباب کی وہ گفتگو
دشمنوں کے طنز جب حسرت سے یاد آتے رہے
زندگی کا جائزہ لیتے رہے ہم دور سے
زندگی کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے
عمر بھر سائل بنے پھرتے رہے ہم در بہ در
عمر بھر دامن سوالی بن کے پھیلاتے رہے
دوستوں نے رفتہ رفتہ مجھ سے آنکھیں پھیر لیں
اور پتھر میرے گھر میں مدتوں آتے رہے
فکر سے ناآشنا دام روایت کے اسیر
کتنے شاعر ایک افسانے کو دہراتے رہے
جب بھی گھر واپس ہوئے زخموں سے ہو کر چور چور
راہ میں کوئی نہ کوئی آشنا پاتے رہے
اب تو مستقبل کرے گا اس کا آذرؔ فیصلہ
بھیک ہم مانگا کئے یا بھیک ہم پاتے رہے