بھارت میں اردو کا مستقبل

 گزشتہ ہفتے، بھارت میں ہندو دائیں بازو کی قوتوں نے ایک  مشہور فرم کو اپنے تہوار کے اشتہار کو واپس لینے پر صرف اس لیے مجبور کر دیا  کہ اس میں اردو زبان کے چند الفاظ شامل کیے گئےتھے،  کیونکہ بھارت میں یہ تصور عام ہے کہ اردو ایک "مسلم زبان" ہے۔

 FabIndia ، جو بھارت میں ایک مشہور کمپنی ہے، نے اگلے ماہ دیوالی کے لیے ایک اشتہار جاری کیا۔ اس میں  اس نے  تازہ ترین   کپڑوں کی کولیکشن کی نمائش  کی۔ اشتہار میں متن درج تھا: "جشنِ  رواج"۔

 بس اس پر وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان رکن پارلیمنٹ، جو اکثر اپنے اسلامو فوبک  بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے  ہیں، برا مان گئے۔

"دپاولی جشنِ رواج نہیں ہے۔" 30

 سالہ تیجسوی سوریا نے ٹویٹر پر پوسٹ کیا۔ (دپاولی دیوالی کا روایتی نام ہے)

"ہندو تہواروں کی ابراہیمائزیشن کی یہ دانستہ کوشش، جس میں روایتی ہندو لباس کے بغیر ماڈلز کپڑوں کی نمائش   کریں، کے خلاف بولا جانا چاہیے۔"

سوریا نے مزید کہا کہ کمپنی کو اس طرح کی جان بوجھ کر غلط مہم جوئی کے لیے معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جلد ہی، بی جے پی کے دیگر اراکین اور دیگر ہندو قوم پرست گروپوں نے سوشل میڈیا پر FabIndia  کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، اور اس برانڈ پر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔

برسراقتدار ہندو پارٹی کے اسی رویہ کی وجہ سے ماہر لسانیات  گنیش این دیو نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا: "جب 2021 کی مردم شماری ہوگی، مجھے ڈر ہے کہ اردو بولنے والے بہت سے لوگ ہندی کو اپنی مادری زبان کے طور پر رپورٹ کر سکتے ہیں۔ "

اسی طرح نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کی پروفیسر نویدیتا مینن نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہندوتوا پراجیکٹ،  اردو کو ایک مسلم زبان کے طور پر دیکھتا ہے۔ اور اردو کو غیر مرئی  بنا کر مسلم کمیونٹی کو پسماندہ کرنا ، ہندو توا کے   ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے،

برصغیر پر انگریزوں کی نوآبادیات قائم ہونے تک اردو اور ہندو زبانوں کو مجموعی طور پر ہندوستانی کہا جاتا تھا۔ یہ برطانوی ماہر لسانیات جان گلکرسٹ تھے جنہوں نے پہلی بار ہندوستانی کو دو وسیع مدات میں درجہ بند کیا اور دونوں کی الگ الگ تعریف کی۔ - فارسی اور عربی سے متاثر الفاظ کو اردو کے طور پر شناخت کیا گیااور سنسکرت سے متاثر ہونے والے الفاظ ہندی بن گئے۔ تاہم، بولی جانے والی اردو ہندی سے ملتی جلتی ہے اور دونوں کی ایک مشترکہ گرامر ہے اور ان کے الفاظ کا ایک بڑا  ذخیرہ ملتا جلتا ہے۔

صدیوں سے، غیر منقسم ہندوستان میں اردو ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے مابین بڑے پیمانے پر بولی جاتی تھی۔ اس کے بہت سے مشہور شاعر اور ادیب غیر مسلم ہیں، جن میں منشی پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، فراق گورکھپوری اور گلزار شامل ہیں۔

آج، اردو ان 22 زبانوں میں شامل ہے جنہیں ہندوستانی آئین نے سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے۔

شاعری اور ادب کے علاوہ، اردو کا بالی ووڈ پر بہت زیادہ اثر ہے، جو  مغربی بھارت کے شہر ممبئی میں واقع ہندوستان کی ہندی فلم انڈسٹری کا مرکز ہے۔ اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد نے فلم کے اسکرپٹ، گیت اور مکالمے لکھے۔

لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مذہبی طور پر پولرائزڈ ہندوستان میں یہ بھی  بدل جائے گا۔

FabIndia تنازعہ کے بعد، بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے بالی ووڈ کے مشہور مکالموں اور گانوں کے میمز پھیلائے ۔ ان میں اردو الفاظ کو ہندی متبادل سے  بدلا۔ لیکن اثر ایک جیسا نہیں تھا۔

اسکرین رائٹر جاوید صدیقی، جنہوں نے کئی بالی ووڈ فلمیں لکھی ہیں، نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اردو کسی بھی دوسری زبان سے بہتر پوزیشن پر ہے  مگرپچھلی چند دہائیوں میں رجحان بدل گیا ہے۔

لیکن صدیقی نے مزید کہا کہ ہندوستان کی مقبول ثقافت میں اردو کا اثر ہمیشہ رہے گا۔

"آپ دل اور محبت کے بغیر کوئی گانا نہیں لکھ سکتے ۔ دونوں الفاظ اردو کے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہندی میں الفاظ کی کمی ہے یا اس میں الفاظ نہیں ہیں لیکن اردو میں جو  صوتی اثرات اور موسیقی ہے وہ کوئی دوسری زبان فراہم نہیں کر سکتی۔"

اردو کے لیجنڈری ادیب سعادت حسن منٹو، جو 1955 میں  فوت ہوئے تھے ،  اس تنازعے پر بہترین  بات کر گئے۔ "ہندو ،  ہندی کی حمایت میں اپنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں اور مسلمان اردو کے تحفظ کے لیے  کیوں اتنے محو ہیں؟ زبان  بنائی نہیں جاتی  بلکہ وہ خود بخود بنتی ہے۔ انسانوں کی کوئی بھی کوشش کسی زبان کو نہیں مار سکتی۔"

اردو کے فارسی-عربی رسم الخط اور اس کی نام نہاد "مسلم" ایسوسی ایشن کے باوجود، ہندوستان کی تحریک آزادی کے بہت سے رہنماؤں نے برطانوی حکومت کے خلاف اپنی لڑائی میں اس زبان کا استعمال کیا۔

ماہر لسانیات گنیش این دیوی نے الجزیرہ کو بتایا کہ جب مشہور آزادی پسند جنگجو  سبھاش چندر بوس نے1942 میں انگریزوں سے لڑنے کے لیے ایک فوج بنائی، تو انہوں نے اس کا نام "آزادیِ  ہند فوج" رکھا۔ "انہوں نے آزادی کے لیے ہندی لفظ 'سواتنتر' استعمال نہیں کیا۔ ماہر لسانیات نے مزید کہا کہ تحریک آزادی کے زیادہ تر نعرے اردو میں تھے، بشمول "انقلاب زندہ باد" ۔

ڈیوی نے کہا: "یہاں  دونوں زبانوں کو متحد کرنے کی طرف ایک رحجان ہے اور دونوں کو الگ کرنے کی طرف بھی ایک رحجان ہے، اور دونوں رجحانات نوآبادیاتی دور کے آخر  تک  آزادی سے  پہلے موجود تھے۔"

انہوں نے کہا کہ جہاں اردو کو ہندوستان کی آزادی کے بعد آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل کرکے وہ عزت دی گئی جس کی وہ حقدار تھی،  وہیں  اب یہ زبان  حملوں کی زد میں ہے۔

دیوی نے کہا کہ 2001 کی مردم شماری کے مطابق، اردو ، ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی سات زبانوں میں شامل تھی۔ 2011 کی مردم شماری میں، جس کے اعداد و شمار 2018 میں سامنے آئے، ملک میں اردو کی  نیّا   ڈوبنے لگی۔

"جب [2021] کی مردم شماری ہوگی، تو مجھے ڈر ہے کہ اردو کے بہت سے بولنے والے شاید ہندی کو اپنی مادری زبان کے طور پر رپورٹ کریں۔ اردو بولنے والوں میں مسلمان کے طور پر شناخت ہونے کا خوف پایا جاتا ہے حالانکہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔"

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے تو ہندی بولنے والوں نے آزادی کے بعد سے مسلسل ترقی کی ہے۔ حکمراں بی جے پی نے بار بار ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان بنانے کا اشارہ دیا ہے، لیکن اب تک اسے غیر ہندی بولنے والی ریاستوں، خاص طور پر جنوب اور مشرق میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ اگر اردو مسلمانوں کی زبان ہوتی تو لوگ قرآن عربی میں نہیں بلکہ اردو میں پڑھ رہے ہوتے اور [مغربی] بنگال اور کیرالہ کے مسلمان اردو بول رہے ہوتے نہ کہ اپنی مقامی زبانیں جیسے بنگلہ اور ملیالم۔  

 

صفوی نے کہا کہ اردو کو اس کی فارسی عربی رسم الخط کی وجہ سے مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے زبان کے ارد گرد سیاست تیز ہوگئی۔

اکیڈمک مینن نے کہا کہ  [FabIndia] اشتہار کے خلاف غم و غصہ  (مصنوعی طور پر) تیار کیا گیا تھا، نہ کہ عام لوگوں کی طرف سے  حقیقی تھا۔ ۔

علی خان محمود آباد، ایک مورخ اور ماہر سیاسیات جو دارالحکومت کی اشوکا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، نے مینن سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ سارا تنازعہ اب مسلمانوں کے ساتھ جڑے کسی بھی چیز پر  گہرے تعصب کی وسیع تر مثال ہے۔

یہ بھارتی مصنف ، بلال