بٹی
بِٹّی (Betty) کو الہ آباد شب میں ضرور پہنچنا تھا۔ لوسی کی سال گرہ تھی اوروہ اس کی سب سے بڑی دوست تھی۔ اس نے کئی بار گردن میں باہیں آویزاں کر کے اصرار کیا تھا، ’’بٹی دیکھوآنا ضرور۔ نہیں تو کالج کی چار برس کی دوستی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔‘‘ اس نے جواب میں لوسی کی نیلگوں آنکھوں کا پیار لے کر کہا تھا، ’’میں ضرور آؤں گی پیاری۔‘‘
لیکن وہ آج تک الہ آباد کبھی نہیں گئی تھی۔ نہ لوسی کے علاوہ کسی سے اس کی جان پہچان تھی۔ یوں بھی اس سے جان پہچان کم ہی لوگوں سے تھی۔ وہ ذرا جھینپو قسم کی عورت تھی۔ اسے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ سینئر کیمبرج میں تھی تو ایک دفعہ کالج کے احاطے کے باہر چند ساتھیوں کے ساتھ گئی تھی۔ وہاں چند ٹامی اور چند اینگلو انڈین لڑکے دکھائی دیے۔ دوسری لڑکیاں تو جیسے انہیں پہلے سے ہی جانتی تھیں۔ وہ ان سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگیں۔ مگر وہ لجاؤ کی طرح شرما کر پیچھے رہ گئی تھی۔ ان میں سے ایک شریر نے اس کی طرف دیکھ کر تعارف کی خواہش کی اور وہ اس کی آنکھیں دیکھتے ہی عرق عرق ہو گئی۔ اس نے جو یہ کیفیت دیکھی تو ہاتھ ملانے کی جگہ جھک کر اس کے ہاتھ کا پیار لے لیا۔ وہ ایک سیکنڈ تو بوکھلا کر کھڑی رہ گئی۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اس کے پاؤں میں کوئی پہیہ باندھ دیا ہے۔ وہ بے تحاشا بھاگی، اسکول کی چاردیواری پھاندی اور اپنے کمرے میں جا کر سسک سسک کر رونے لگی تھی۔
اس دن سے وہ غیر مردوں کی صورت سے گھبراتی تھی۔ کہیں کوئی اس شریر لڑکے کی طرح ہاتھ چوم نہ لے۔ اسی لئے گو وہ آج ایفائے وعدہ کے لئے الہ آباد جا رہی تھی لیکن اس کے دل پر بنی تھی۔ گاڑیوں کے اوقات دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ صبح کی گاڑیاں بہت سویرے ہی چھوٹتی ہیں۔ اس وقت لال باغ آنا کوئی آسان کام نہیں۔ ڈاک گاڑی البتہ مل سکتی ہے، پرتاپ گڑھ سے دوسری گاڑی ملے گی جو اسے شام کو الہ آباد پہنچا دے گی۔ اس نے لوسی کو اپنی روانگی کا تار دیا۔ انٹر کلاس کی جگہ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لیا اور میل ٹرین میں زنانے ڈبے میں بیٹھ گئی۔ اتفاق یہ کہ گاڑی لکھنؤ ہی میں ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ تھی۔ راستہ کی خرابی کی وجہ سے وہ اپنی معینہ رفتار سے بھی سست چلی اور پرتاپ گڑھ تین گھنٹے بعد پہنچی۔
راستہ میں سب کو یقین تھا کہ لوکل گاڑی میل کے مسافروں کا ضرور انتظار کرے گی مگر جب بٹی پرتاپ گڑھ پہنچی تومعلوم ہوا، ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند!‘‘ گاڑی چل دی اور صرف پٹری چمکتی رہ گئی! الہ آباد جانے والے مسافروں کا ایک ہجوم اس کے ساتھ اترا تھا۔ سب اس سے پریشان کہ پورے چوبیس گھنٹے پرتاپ گڑھ میں کیسے کٹیں گے۔ معلوم ہوا لاری منہ مانگا کرایہ لے کر جائے گی۔ سب نے لاری سے جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اب بٹی سخت پریشان تھی۔ اگر لاری سے جاتی ہے تو نہ جانے کتنے بجے رات کو شہر میں پہنچے گی۔ وہاں سے لوسی کے ہاں کیونکر جائے گی۔ اگر نہیں جاتی ہے تو پوری شب ایسے اسٹیشن پر، جس کا اسٹاف خالص ہندوستانی اور مردانہ ہے کیونکر گزارے گی۔ بالآخر اس مرگ انبوہ میں مفر دیکھی اور لاری کے آتے ہی قلی سے اسباب لدوایا اور لاری کے آگے چھوٹے ڈبے میں آکر بیٹھ گئی۔
اسٹیشن پر، نیز وہاں سے لاری تک آنے میں ہندوستانی، ہندو، مسلمان، عیسائی نوجوانوں کی نظر نے اسے گھبرا دیا تھا۔ سب نے اسے اسی طرح دیکھا تھا، جس طرح اس شریر لڑکے نے آج سے چاربرس پہلے دیکھا تھا۔ اس کا دم پھولنے لگا تھا۔ اس کے ہاتھ پسیجنے لگے تھے۔ اور اس کی کنپٹی میں دھمک سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے لاری کے چھوٹے ڈبے میں بیٹھ کر چاروں طرف نظر کی۔ اس کے ڈبے میں اس وقت تک کوئی دوسرا مسافر نہ تھا۔ ڈرائیور نے اس ڈبے کوپہلے ہی سے موٹی اسامیوں کے لئے خالی کر رکھا تھا۔ بڑا ڈبہ نصف سے زیادہ بھر گیا تھا۔ سب صاف ستھرے لوگ تھے۔ میلا گندہ کوئی نہ تھا۔ بعض انگریزی لباس میں۔ کچھ ہندوستانی کپڑوں میں، لیکن سب کے سب ’’کالے‘‘ تھے۔ ان سے ہمدردی کی زیادہ امید نہ ہو سکتی تھی۔
وہ بٹی کی گھبراہٹ اور جھینپ کو کیا سمجھ سکتے تھے اور اگر سمجھتے بھی تو اس کا ان کے سامنے اظہار بھی تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حاکم قوم کا خون جو رگوں میں تھا! اس نے گھورنے والوں، سیٹی بجانے والوں اور ڈبے کے سامنے بار بار چکر لگانے والوں کو اس بے اعتنائی اور حقارت آمیز نظر سے دیکھا جس کے وہ حیوان مستحق تھے۔ اس ایک حاکمانہ نظرنے محکوموں کی للچائی نظر سے جرأت چھین لی۔ بٹی نے ذرا اطمینان کی سانس لی اور بٹوہ کھول کر چھوٹے سے آئینے میں اپنی صورت دیکھی۔ دو بڑی بڑی نیلگوں آنکھوں کے گوشوں میں خوف سا تھا۔ بال بھی بے قرینے تھے اور ناک کے بانسے سے پسینہ نے پاؤڈر دھو دیا تھا۔ لپ اسٹک لگے ہوئے ہونٹ پپڑا گئے تھے۔ اسے اب یاد آیا کہ اس نے صبح کی حاضری کے بعد کچھ نہیں کھایا تھا اور وہ بھوکی بھی تھی اور پیاسی بھی۔ اس کے ناشتے دان میں کچھ سموسے اور تھوڑی سی سینڈوچ رکھی تھی، چار پانچ سنترے اور کیلے بھی تھے، لیکن وہ اسے کھاتی کیسے۔
گاڑی میں کافی بھیڑ تھی اور گو، اس میں عورتیں ہی عورتیں تھیں، لیکن ان کے سامنے بھی ناشتہ دان نکال کے کھانے اوراپنی معمولی چیزیں کھانے میں شرم سی آتی تھی۔ اب لاری میں یہ ڈبہ خالی ضرور تھا مگر پانی کہاں ملے گا۔ اس نے اسی لئے ناک پر پاؤڈر لگاتے ہی سیٹ کے سامنے رکھے ہوئے ناشتہ دان کو کھولا اور اس میں سے دو سنترے نکالے۔ گول گول زرد زرد، ان میں سے ایک چھیلا اور کھانا شروع کیا۔ ابھی ایک قاش کھائی تھی کہ ایک ہندوستانی انگریزی کپڑوں میں مع اپنی بیوی کے اندر داخل ہوا۔ بٹی کی سنترے کی قاش گلے میں پھنس سی گئی۔ ایک کالا جوڑا اسے سنترا کھاتے دیکھ کر کیا سمجھے گا؟ چادروں میں لپٹی ہوئی عورت میم صاحبہ دیکھتے ہی بیربہوٹی کی طرح اور بھی سمٹ گئی۔ بٹی نے اپنی گھبراہٹ چھپا کر اس بیر بہوٹی پر مربیانہ نظر ڈالی۔
اپنے سے بھی زیادہ گھبراتی ہوئی عورت کو دیکھ اس میں جرأت ابھر آئی تھی۔ مرد بھی بیوی کو بٹھا کر باہرچلا گیا۔ بٹی نے سوچا، لاؤ اسی سے دوستی کریں۔ اس نے دوسرا بے چھلا سنگترہ اس کی طرف بڑھا دیا، ’’لو کھاؤ۔‘‘ عورت نے ہاتھ جوڑ کے سلام کیا اور شیریں آواز سے ’’نہیں‘‘ کہا۔ بٹی نے اصرار کیا، ’’کھاؤ۔‘‘ لب و لہجہ میں وہی حاکمانہ انداز تھا۔ عورت نے زیادہ انکار مناسب نہ سمجھ کر سنگترہ لے لیا اور پھر سلام کیا۔ بٹی کومسرت سی محسوس ہوئی۔ وہ اس بے سروسامانی میں بھی محکوم قوم کی سرپرستی کرسکتی تھی۔ اس نے سوچا اس کو اوربھی سنگترے اورکیلے دیناچاہئیں۔ اس نے ناشتہ دان کھولا اور اس میں سے چار سنگترے اور نکالے اور آدھے درجن کیلے، نصف اپنے لئے رکھے اورنصف پھر گوبھی کے پھول کی طرف بڑھائے مگر اب کے ’’نہیں نہیں‘‘ کے ساتھ عورت نے اپنے سامنے رکھا ہوا چھابہ کھینچ کر کھولا۔
پچاس سے کم سنگترے نہ تھے۔ بٹی پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ جس کی سرپرستی کرنے چلی تھی، وہ غالباً رئیس زادی تھی۔ سچ ہے ہندوستان کنگالوں کی طرح راجاؤں کا بھی ملک ہے! اب اس سے نہ اپنے سنگترے کھائے جاتے تھے اور نہ انہیں ناشتہ دان میں رکھا جاتا تھا۔ اسے کھولتے ہی یہ رئیس زادی اس کے ناشے کی ساری پونجی دیکھ لے گی۔ وہ اسی الجھن میں تھی کہ ایک اینگلوانڈین جو ان فوجی لباس میں داخل ہوا۔ ہندوستانی عورت اپنی تہذیب سے اور بٹی اپنی فطرت سے مجبور ہو کر سکڑگئی۔ اس نے دونوں پرجھکتی نظرڈالی۔ پیٹھ پر لدا ہوا سامان اتارکرسیٹ پررکھا اور دونوں عورتوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ ہندوستانی عورت کھسک کر بالکل ایک کونے میں ہو گئی۔ نوجوان نے ذرا مسکرا کر اس کی طر ف دیکھا اور بٹی سے انگریزی میں کہا، ’’ڈرتی ہے کہ کہیں میں چھو نہ لوں۔‘‘
بٹی کے دل میں بھی یہی ڈر تھا مگر وہ یہ کیسے کہہ سکتی تھی۔ اس میں مغربی تہذیب کی توہین ہوتی تھی۔ اس لئے وہ بھی اس طرح مسکرا دی کہ ہندوستانی عورت کا یہ فعل قابل مضحکہ ہے۔ نوجوان کی نظر دفعتاً ان سنگتروں پرپڑی جو اس کی بغل میں سیٹ پررکھے تھے۔ اس نے بے تکلفی سے پوچھا، ’’تمہارے ہیں؟‘‘ بٹی نے گردن ہلائی۔ ’’کیا میں لے لوں؟‘‘ پھر گردن ہلی اور وہ ’’شکریہ‘‘ کہہ کر بڑے اطمینان سے ایک اٹھا کر چھیلنے اور قاشیں صاف کر کے کھانے لگا۔ بٹی کو اس کے دانتوں کی چمک بھلی معلوم ہوئی اور نہ جانے کیوں ایک خیال سا آیا۔ مگر وہ کسی کے جسم میں دانت پیوست کر دے تو تکلیف کی جگہ راحت محسوس ہوگی۔ اسے یہ خیال آتے ہی جسم میں چنگاریاں سی دوڑتی محسوس ہوئیں اور جبڑے کے نیچے گردن کی رگ پھڑکنے لگی۔ اس نے کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ وہ سنگترہ اس طرح کھا رہا تھا کہ صاف معلوم ہوتا تھا کہ بھوکا ہے۔
اس نے جھک کر ناشتہ دان کھینچا اورکہا، ’’سینڈوچ بھی کھاؤگے؟‘‘ اس نے ’’شکریہ‘‘ کہا اور اس کی بڑھائی ہوئی سینڈوچ بھی کھانا شروع کر دی۔ بٹی نے اس طرح ایک ہم قوم سپاہی کی تواضع میں مسرت محسوس کی۔ اس نے اب کے سموسے بھی نکال کر بڑھائے۔ اس نے پھر ’’شکریہ‘‘ کہا اور انہیں بھی اطمینان سے کھا ڈالا۔ جب وہ اپنے پیٹ کی خیر منا چکا تو بولا، ’’لیکن تم نے کچھ نہیں کھایا؟‘‘ بٹی نے پیٹ بھروں کے انداز سے کہا، ’’مجھے اس وقت کچھ ایسی خواہش نہیں۔‘‘
’’پھر بھی!‘‘ اس نے کہتے ہوئے سنگترے بٹی کی طرف اس طرح بڑھائے جیسے وہ اسی کے تھے۔ بٹی نے بے خیالی میں ’’شکریہ‘‘ کہا اور ایک ان میں سے اٹھا لیا۔ وہ بڑے زور سے ہنسا۔ ’’میں کہتا ہوں، یہ میرے نہیں، تمہارے ہیں۔‘‘ وہ کچھ تو اپنی بھول پر اور کچھ ان دانتوں کی چمک دیکھ کر شرما گئی۔
نوجوان نے ایک خاکی رومال سے لب اور ہاتھ صاف کئے۔ سامنے فوجی بوتل رکھی تھی۔ اسے منہ لگا کر غٹ غٹ پانی پیا اور جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی۔ بٹی کی طرف ڈبیا بڑھا کر پوچھا، ’’سگریٹ؟‘‘ اس نے گردن ہلا کر انکار کیا۔ اس نے اپنے لئے ایک سگریٹ نکال کر لبوں میں دبایا۔ دیاسلائی جلائی اور اس کی طرف مڑ کر منہ ہی منہ میں بولا، ’’اجاز ت ہے؟‘‘ بٹی نے کہا، ’’شوق سے۔‘‘ اور اس نے سگریٹ اس طرح جلائی جیسے گاڑی میں دوسری خاتون جو بیٹھی تھی، نہ تو وہ عورت تھی اورنہ اس کی تکلیف کا خیا ل کوئی اخلاقی فریضہ ہو سکتا تھا۔ ہندوستانی عورت نے پہلے تو چھوٹے سے ریشمی رومال سے ناک بندکی۔ پھرکھڑکی کے باہرآدھا سر نکال لیا۔ معلوم ہوتا تھا، اسے سگریٹ کی بوسے حد درجہ نفرت ہے!
اتنے میں ہندوستانی مسافر بھی آگیا۔ اس نے اس نوجوان کو دیکھا اور اس کی سگریٹ کو۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اس نے نوجوان کی بغل میں بیٹھتے ہوئے کہا، ’’معاف کیجئے گا، کیا آپ سگریٹ باہر نہیں پی سکتے؟‘‘ نوجوان نے بڑی رعونت سے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘ اس نے کہا، ’’اس لئے کہ میری بیوی کو سگریٹ کی بو اس قدر ناپسند ہے کہ اس پرغشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔‘‘ نوجوان نے ’’سوری‘‘ کہہ کر سگریٹ باہرپھینک دی۔ لیکن اتنے سے اخلاق کے بعد مسافر کی طرف مڑ کر بولا، ’’میں کہتا ہوں آپ بڑے ڈبے میں ان کو کیوں نہیں لے جاتے۔ اس میں ہندوستانی لوگوں کی موجودگی سے زیادہ آرام ملے گا۔‘‘
’’جی اسی لئے میں نے یہ چھوٹا ڈبہ پورا ریزرو کرا لیا ہے۔ اور ساری سیٹوں کے دام دیے ہیں۔‘‘
نوجوان سٹپٹا گیا، ’’تو ہم لوگ یہ ڈبہ خالی کر دیں؟‘‘ اس نے اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے کچھ منفعل سی آواز میں کہا۔
’’نہیں آپ میاں بیوی بھی اس میں رہ سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ سگریٹ نہ پئیں۔‘‘ نوجوان نے بٹی کی طرف مڑ کر مسکراتے ہوئے دیکھا۔ بٹی کے احتجاج کے لئے کھلتے لب بند ہو گئے۔ نوجوان کی مسکراہٹ میں اس کے دنداں جھلک رہے تھے۔ آخر اتنی سی غلط فہمی کے ازالہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا تومعاملہ ہے۔ اگر تشریحات شروع ہوئیں تو ممکن ہے اس ڈبے سے نکلنا پڑے، پھر اس کالے آدمیوں سے بھرے ڈبے میں جانا پڑے گا۔ خیال ہی سے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ ایسے مردوں کے درمیان گھس پل کے بیٹھنا پڑے گا، جن میں سے کئی ننگے رہتے ہیں، اور برابر توند سہلا سہلا کر گندی ڈکاریں لیتے ہیں۔ آخر ان کو تہذیب کب آئے گی؟ وہ تو ادھر مشرقی تہذیب کی خرابیوں پرغور کرنے لگی۔ ادھر نوجوان نے ’شکریہ‘ کہہ کر اپنا سامان پھرسیٹ پر رکھ دیا اور اس طرح ہندوستانی جنٹلمین نے ’’میاں بیوی‘‘ پرمہر لگا دی۔
نوجوان اب باقاعدہ بٹی کی طرف مڑ پڑا، ’’کیوں پیاری کیا تمہارے لئے پانی لاؤں۔‘‘ اس نے چمکتے ہوئے دانت نکال کر پوچھا۔ بٹی نے شرماتے ہوئے کہا، ’’نہیں کچھ ایسی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ نہایت بے باکی سے اس کی طرف جھک کر بولا اور کھڑا ہو گیا۔ بٹی اسے اس نئے رشتے کو مضبوط تر بنانے سے باز رکھنا چاہتی تھی۔ مگربات حلق میں آکر رک گئی۔ قبل اس کے کہ وہ گلا صاف کر کے کچھ کہے، نوجوان ڈبے سے باہر نکل گیا۔
وہ ہندوستانی جوڑے کی طرف اس خیال سے مڑی کہ وہ ان کی نظروں میں اپنی پوزیشن صاف کر دے۔ لیکن وہ باتوں میں مشغول دکھائی دیے اور وہ ہونٹ پر زبان پھرا کے رہ گئی۔ دفعتاً دماغ میں میاں بیوی، میاں بیوی کی تکرار سی ہونے لگی۔ اور اسے اس میں ذائقہ سا محسوس ہوا۔ میاں بیوی، کتنا اچھا جوڑا ہے دو لفظوں کا، بالکل اسی طرح کا جیسے وہ مرد و زن جوایک ساتھ زندگی بسر کرنا خود ہی پسند کریں۔ مگر اس طرح ساتھ رہنے میں تو وہ ایک دوسرے کو چومتے چاٹتے ہوں گے۔ کتنا گندہ ہے یہ کام بھی۔ دفعتا ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے جسم بھر میں آگ کا شعلہ سا دوڑنے لگا اور اس کی ہتھیلیاں پھر پسیجنے لگیں۔ رہ رہ کے گدگدی سی محسوس ہونے لگی۔ وہ گھبرا اٹھی۔ جی چاہنے لگا کہ چیخے کہ یا اللہ یہ کیا معاملہ ہے۔ اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ہلانی شروع کی۔
برتھ میں جومسلسل حرکت پیدا ہوئی تو ہندوستانی جنٹلمین نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی حماقت محسوس کی اور ’’سوری‘‘ کہہ کر ٹانگ ہلانا بند کیا۔ مگر سکون سے بیٹھنا محال سا معلوم ہوتا تھا۔ میاں بیوی، میاں بیوی، کبھی کوئی قریب سے بالکل پاس آ کر رازدارانہ طریقہ پر کہتا۔ کبھی بہت دور جا کر چڑھانے والی آواز میں اور کبھی کان میں چیخ کر اس طرح کہ معلوم ہوتا سارے پردے پھٹ جائیں گے۔ پچیس برس کا سن ہونے کو آیا مگر اس طرح کا عجیب اتفاق کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس نے بے بسی سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ جاگتے میں خواب دیکھنے لگی۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کا سارا جسم ’’ایوننگ ان پیرس‘‘ کی خوشبوؤں سے معطر ہے اور وہ ایک دودھ سے زیادہ سپید اور تارعنکبوت(۱) سے زیادہ باریک گاؤن پہنے ایک گرجا گھر میں آہستہ آہستہ چلی جا رہی ہے۔
لوسی کے کاندھے پر اس کا ہاتھ ہے اور محلے کی کئی کمسن لڑکیاں پھولوں کے ہار اور گلدستے لئے ساتھ ہیں۔ پادری سامنے بلند چبوترے پر بائبل لئے کھڑا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ نسیم سے زیادہ سبک قدم رکھتی ہوئی بڑھتی ہے۔ ایک خوش پوش، بالا قد نوجوان اس کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دیتا ہے۔ پادری کہنا شروع کرتا ہے۔۔۔ میں تم کو میاں بیوی۔۔۔۔ اس نے مسرت سے چونک کر آنکھ کھول دی۔ دیکھا تونوجوان سپاہی اپنے چمکتے ہوئے دانت نکالے دو گلاسوں میں لیمن لئے کھڑا ہے۔ اس نے ایک بار’’اوہ‘‘ کہا اور بیساختہ مسکرا دی۔ ساتھ ہی اس مسکراہٹ کے رد عمل سے اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ نہ جانے وہ سپاہی کیا سمجھے اوروہ ہندوستانی جوڑا کیا سمجھے۔ لیکن نوجوان نے زیادہ سوچنے کا موقع نہ دیا۔ اس نے اس کی طرف ایک گلاس بڑھا کر کہا، ’’لو پیو۔‘‘ بٹی نے جیسے ہی گلاس ہاتھ میں لیا، اس نے اپنا گلاس اس کے گلاس سے ملا کر کہا، ’ہماری آنے والی خوشیوں کے نام پر‘ اوراس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرآدھا گلاس ایک سانس میں پی گیا۔
بٹی کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کیسے ڈبے سے نکل کر بھاگ جائے یا وہیں تختے ٹوٹ جائیں اور وہ زمین میں دھنس جائے۔ یہ سپاہی تو انگلی پکڑتے ہی پنجہ پکڑنے لگا۔ کس سے کہے کہ بچاؤ، شکاری اپنا جال بچھا رہا ہے۔ میں گرفتار ہوا ہی چاہتی ہوں۔ آخر وہ اب اس گلاس کو کیا کرے۔ اگر باہر پھینک دیتی ہے تو ہندوستانیوں کو اس کی جستجو ہوگی کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ اگر نہیں پھینکتی ہے تو یہ سپاہی اس کو کمزور سمجھ کے نہ جانے اور کیا کیا حرکتیں کر ڈالے گا۔ اس کا ہاتھ کانپنے لگا اور بھرے گلاس میں سے تھوڑا سا لیمن چھلک کر اس کی گود میں گر پڑا اور گاؤن سے چھن کر اس کے جسم تک پہنچ گیا۔ جلتی جلد پر اس کی اچانک ٹھنڈک کچھ عجیب طرح کی محسوس ہوئی۔ وہ پورے جسم سے گنگنا اٹھی۔
نوجوان نے مسکرا کر ہاتھ بڑھایا، ’’میں اپنے ہاتھ سے پلا دوں؟‘‘ بٹی نے گھبرا کرجلدی سے اسی کی طرح آدھا گلاس پی ڈالا۔ بڑی دیر سے پیاس بڑھتی ہی گئی تھی۔ برف میں جھلا ہوا لیمن بڑے مزے کا معلوم ہوا۔ اس نے ایک سیکنڈ دم لیا اور بقیہ نصف بھی پی گئی۔ اس نے ایک ٹھنڈی لکیر حلق سے معدے تک جاتی ہوئی محسوس کی اور خالی گلاس سیٹ کے نیچے رکھ کر رومال سے آہستہ آہستہ بھیگے ہوئے ہونٹ خشک کئے۔ معاً خیال آیا لپک اسٹک پونچھ گئی ہوگی اور لب پر دھبے سے پڑ گئے ہوں گے۔ اس نے ذرا کھڑکی کی طرف مڑ کر بٹوہ کھولا او ر اس کے چھوٹے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا۔ ہونٹوں کے کونوں سے واقعی لپ اسٹک غائب ہے۔
اب بگڑی صورت کیونکرسنوارے، سپاہی نے جو گھور گھور کے دیکھ رہا تھا، غالباً بٹی کی حالت کا اندازہ کر لیا۔ اس نے ہندوستانی جوڑے کی طرف پلٹ کر پوچھا، ’’میں آپ لوگوں کی تو کوئی خدمت نہیں کر سکتا؟‘‘ بٹی نے جلدی سے لپ اسٹک نکال کر ہونٹوں پر رگڑ دی۔ لیکن رومال کے کونوں سے اسے ٹھیک ہی کر رہی تھی کہ وہ پلٹ پڑا، ’’مسلح ہو رہی ہو، ایں؟‘‘ اس پاجی نے مسکرا کر کہا۔
جی چاہتا تھا اس موذی کی گردن پکڑ کر توڑ دے، یا اس کی عقابی آنکھیں نکال کر پھینک دے۔ پاجی ہر بات میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے۔ جیسے وہ سچ مچ کی اس کی بیوی ہی تو ہے۔ گھنٹے دو گھنٹے چین سے اس ڈبے میں بیٹھنے کی غرض سے جھو ٹ کا سہارا لیا گیا تھا مگر وہ توجیسے اپنے سپید جھوٹ کو بالکل ہی سچ سمجھنے لگا تھا۔ اس ’’ہندوستانی جنٹلمین‘‘ سے اصل بات کہہ دی جائے۔ مگر وہ تو اینگلو انڈین نوجوان ہی کو ڈبے سے نہ نکال دے گا بلکہ بٹی کو بھی۔ اس نے توان کو اس ڈبے میں نیابیاہاہوا سمجھ کر جگہ دی ہے۔ پھریہاں سے نکل کراسے کیسے جگہ ملے گی؟ بڑے ڈبے میں تو آدمی ٹھونسے گئے تھے۔ لوگ ڈبے کے فرش پر بھی بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ پھر کیا کرے آخر وہ بیچاری؟ اسے خود اپنے اوپر ترس آنے لگا اور غصہ بھی۔ آخر وہ اس قدر جھینپو کیوں ہے؟ کیا کردے گا اس کا سپاہی یا کوئی اور مرد؟ پورپ میں ہزاروں لڑکیاں اس سے کہیں زیادہ جگہوں میں پھنس جاتی ہیں۔ لیکن وہ نہیں گھبراتیں بلکہ وہ ہمیشہ سے لوسی کی طرح چوما چاٹی کی عادی ہو جاتی ہیں۔ اللہ کتنا بڑا یہ کام ہے۔۔۔!
بیرے نے کھڑکی سے جھانک کر پوچھا، ’’حضور گلاس خالی ہیں۔‘‘ نوجوان نے اپنا اور اس کا گلاس اٹھایا اور جیب سے پیسے نکال کر دینے لگا۔ بٹی نے ’’نہیں نہیں‘‘ کہا اور اپنا پرس کھولا۔ سپاہی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا، ’’اتنے میں میرا دیوالہ نہ نکل جائے گا۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ پھر بھی ہندوستانی ساتھی نے شاید سن لیا، اس لئے کہ اس نے پلٹ کر استعجاب سے دیکھا۔ بٹی کا بڑھا ہوا ہاتھ سکڑ کر رہ گیا اور نوجوان نے پیسے دے دیے۔ اس کے ہاں بھی شاید ہندوستانی مسافر کی استعجابی نظر کا کچھ اثر ہوا تھا، اس لئے کہ اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور اس سے ایک سگریٹ نکالا۔ بٹی نے جلدی سے جھک کر شانہ ہلایا، ’’یہاں نہ پینا۔‘‘
سپاہی چونک پڑا، ’’ارے میں یہ تو بھول گیا تھا۔‘‘ وہ جلدی سے اسی طرح بغیرسلگائی ہوئی سگریٹ منہ میں لگائے باہر چلا گیا۔ ہندوستانی مسافر کو بھی کوئی ضرورت پیش آئی۔ وہ بھی اتر گیا۔ بٹی کو محسوس ہوا جیسے سینہ پر رکھی ہوئی سل کسی نے اتار کر الگ رکھ دی۔ گھٹتا ہوا دم اپنی معمولی رفتار سے چلنے لگا۔ ہندوستانی عورت نے گھونگھٹ سے چہرہ نکال کراس کی طرف دیکھا۔ کندنی رنگ میں دوغزالی آنکھیں ایسی بھلی معلوم ہوتی تھیں کہ بٹی کو اپنا فرنگی رنگ بھول گیا۔ ارے یہ پری چہرہ مشرق! بیساختہ انگریزی میں بول اٹھی، ’’میں نہ جانتی تھی کہ تم نے ایسی صورت کپڑوں میں لپیٹ رکھی ہے۔‘‘ ہندوستانی عورت نے اسی زبان میں جواب دیا، ’’ہاں ہمارے ہاں کی رسم یہی ہے کہ نئی دلہنیں اسی طرح منہ چھپائے رہتی ہیں۔‘‘
بٹی نے پوچھا، ’’کیا نئی شادی ہوئی ہے؟‘‘ اس نے شرما کر کہا، ’’تین مہینے ہو چکے ہیں مگر سسرال پہلی دفعہ جا رہی ہوں۔‘‘ بٹی نے کہا، ’’اچھا، میں سمجھی۔‘‘ مگر سمجھی و مجھی خاک نہیں۔ ہاں اسے دفعتاً خیال آیا، میں جسے گنوارن بیوقوف سمجھ رہی تھی، وہ تو پڑھی لکھی بھی نکلی۔ انگریزی بھی خوب بول لیتی ہے۔ بات بنا کر بولی، ’’بہت چاہتے ہیں میاں آپ کے۔ کسی کو سگریٹ نہیں پینے دیتے۔‘‘ وہ شرما کر بولی، ’’ہاں کوئی مہینہ بھر سے ایسا ہوگیا ہے کہ سگریٹ کی بوسے جی متلانے لگتا ہے۔۔۔‘‘
بٹی نے سر ہلا کرپھرجلدی سے کہا، ’’ اوہ، میں سمجھی۔۔۔‘‘ اور وہ ایک نئی الجھن میں پڑ گئی۔ عورتوں کے سر آخر یہ بلا کیوں لگائی گئی ہے؟ کیا قدرت کی سمجھ میں کوئی اور ذریعہ نہ آتا تھا۔ آخرصنف نازک کے ذمہ بار برداری کے فرائض کیوں؟ اس سے تو ’’مضبوط تر‘‘ صنف زیادہ موزوں تھی۔ لیکن کوئی ایسا کام ہی کیوں کرے کہ یہ مصیبتیں گلے پڑیں؟ مارے باندھے کا تو سودا نہیں ہے۔ اپنی خوشی کی بات ہے۔ لیکن اس ہندوستانی عورت کو دیکھا تو اس کے چہرے سے آسودگی اور ایک پوشیدہ مسرت ظاہر ہوتی تھی، جو اس نے اپنے چہرے پر کبھی نہ دیکھی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے آب حیات پالیا تھا جو ابدی خوشی کا سرچشمہ ہے۔
ہندوستانی مرد نے ڈبے کا دروازہ کھول کر بیوی سے کہا، ’’پورا ڈیڑھ گھنٹہ لاری میں بیٹھے ہوئے ہوگئے۔ اب جا کر کسی طرح کوئلہ لہکا ہے اور گیس بننا شروع ہوئی ہے۔ اب دس منٹ میں ہم لوگ روانہ ہو جائیں گے۔‘‘ بٹی نے گھبرا کر پوچھا، ’’اور پہنچیں گے کب؟‘‘ ہندوستانی نے بے بسی سے ہاتھ ہلا کر کہا، ’’خدا ہی جانتا ہے۔۔۔ کم سے کم ڈھائی گھنٹے میں۔‘‘
بٹی نے کلائی پر لگی ہوئی گھڑی دیکھی۔ نو بج رہے تھے۔ وہ ساڑھے گیارہ بجے شب میں الہ آباد شہر پہنچے گی۔ وہاں سے تانگہ کر کے اسے منٹو روڈ لوسی کے پاس پہنچنا ہوگا۔ نہ جانے کوئی سواری ملے گی بھی یانہیں۔ پھروہ اس قدر شب میں تن تنہا نئے شہر میں کیونکر جائے گی؟ تانگہ والا کوئی ویسا ہوا جیسا ابھی لکھنؤ میں ملا تھا، وہی جو اسے خواہ مخواہ فوجی بارکوں تک لے گیا تھا اور جہاں سے وہ بمشکل بچ کرآئی تھی۔ وہ اتفاق سے ’’کیپٹل‘‘ سے تماشا دیکھ کر پلٹی تھی۔ ایک تانگہ والا آگے آ کر بولا، ’’میں لے چلوں مس صاحب۔‘‘ وہ ا س پر بیٹھ گئی۔ وہ کیا جانتی تھی اس کا کام سواری دینا نہیں بلکہ رسد پہنچانا ہے۔ پاجی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کہاں جائیے گا۔ اسے بھی خیال نہیں رہا۔
وہ تو یہی غور کر رہی تھی کہ ’’بالی ووڈ‘‘ کی ایکٹرسیں آخر اس کثرت سے کیوں شادیاں کرتی ہیں اور طلاق لیتی ہیں۔ ہو نہ ہو ان کو اپنے میاں کی پیٹھ کھجانا پڑتی ہوگی۔ اس نے ایک دن اپنے بنگلے کی مالن کو دیکھا تھا کہ وہ بیٹھی میاں کی پیٹھ کھجا رہی تھی۔ اسی دن سے اسے نہ جانے کیوں ناخوشگوار باتوں کے ساتھ ساتھ پیٹھ کھجانا ضرور یاد آجاتا تھا۔ یقینی ایسی شادیوں میں جن کا خاتمہ طلاق ہوتی ہے۔ مرد عورت میں سے ایک کو پیٹھ کو کھجانے والا کام ناپسند ہوگا مگر اس طرح کا مرد جس کے دانت اس طرح چمکتے ہوں، اس کی پیٹھ میں کھجلی نہ ہوتی ہوگی۔ کھجلی کا خیال آتے ہی اس کی بغلوں میں ایک سرسراہٹ سی معلوم ہوئی۔ اس نے آہستہ آہستہ بغل کھجائی۔ پھر اس کا خودبخود چٹکیاں کاٹنے کوجی چاہنے لگا۔ چنانچہ اس نے آہستہ آہستہ خود ہی چٹکیاں کاٹیں۔ مگرچٹکیاں کاٹنے کی یہ خواہش بڑھنے لگی کہ دفعتا ًلاری کے بھرانے کی آواز آئی اور وہ ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔ بٹی کو اس جھٹکے میں بڑا مزہ آیا۔ بالکل اس طرح کا جیسا کہ جھولے کی پینگ میں۔
نوجوان سپاہی چلتی ہوئی لاری میں سگریٹ پھینک کر سوار ہو گیا۔ بٹی کو اس کے چہرے پر بھی وہی جذبات دکھائی دینے لگے جواس نے فوجی بارکوں کے قریب والی سڑک پر دوسرے سپاہیوں کے چہرے پر دیکھے تھے۔ اس دن تو تانگے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کر کہ، ’’کہاں لایا تو؟ لے چل حسین گنج۔‘‘ اپنے کو بچالائی تھی مگر آج ساڑھے گیارہ بجے رات کو الہ آباد کی تاریک سڑکوں پر تن تنہا۔ کیا ہوگا آج؟ اس کا دل دھڑکنے لگا۔
نوجوان آکر بغل میں بیٹھ گیا۔ اس کی خاکی قمیص کی بغلیں تر تھیں اور اس کے چہرے سے پسینے کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ اس نے بیٹھتے ہی اپنے پتلے پتلے ہونٹوں کوملا کر ایک سیٹی بجائی اور کہا، ’’کتنا ٹھنڈا ملک ہے یہ بھی۔۔۔ لیکن اگر کہیں کسی کو میری طرح افریقہ کا صحرا دیکھنا نصیب ہو تو اسے معلوم ہو کہ جہنم کسے کہتے ہیں؟‘‘
بٹی نے اخلاقاً پوچھا، ’’ کیا وہیں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’اور کیا۔‘‘ اس نے کہا، ’’رومر کی فوج کو بھگائے ٹیونیشیا فتح کئے چلا آ رہا ہوں۔‘‘ پھرذرا رک کرمتانت سے بولا، ’’میں وہاں ٹکنیشن ہوکر گیا تھا۔ زیادہ ترمصر ہی میں رہنا ہوا۔ اب وہاں سے کمیشن کے لئے بھیجا گیا ہوں، چھ مہینے میں لیفٹیننٹ ہو جاؤں گا۔‘‘ بٹی نے ذرا تامل سے پوچھا، ’’الہ آباد میں اعزاء ہیں؟‘‘ وہ ہنسنے لگا، ’’نہیں! میں یتیم خانہ میں پلا اور بڑھا، کچھ ساتھی ہیں اور استاد، انہیں سے ملنے جا رہا ہوں۔‘‘
بٹی کے دل میں ایک جذبہ مادرانہ لہریں لینے لگا۔ بیچارہ بن ماں باپ کا بچہ۔ اسے کوئی آرام نہ نصیب ہوا ہوگا۔ آج بھی لام سے واپسی پرصرف چند پرانے دوست اور استاد! اس کا جی چاہنے لگا، اس سپاہی کا سر گود میں رکھ کراپنی انگلیوں سے اس کے بالوں میں کنگھا کرے اور اسے یقین دلائے کہ ملک و قوم پر جان دینے والا سپاہی کبھی نگھرا نہیں ہو سکتا۔ ہر ملکی عورت اس کی ماں، اس کی بہن، اس کی بیوی۔۔۔ پھر جسم میں شعلہ سا دوڑنے لگا۔ پھر وہی ہتھیلیاں پسیجنے لگیں، پھر وہی ٹانگیں ہلانے کو جی چاہنے لگا۔ یا اللہ یہ ہے کیا؟
وہ اس میں الجھی رہی اور ادھرہندوستانی مسافر نے لام سے واپس آنے والے سپاہی سے گفتگو چھیڑ دی۔ بٹی، مارشل ویول، جنرل اوچنلک، جنرل منٹگمری کے نام سنتی رہی۔ کبھی کبھی مسٹر چرچل اور پریسیڈنٹ روز ویلٹ کا بھی ذکرآیا۔ کبھی کبھی سر سکندر حیات خاں اور مسٹر ایڈن کا تذکرہ بھی آیا۔ مگراس نے ان کی گفتگو نہ تو دھیان سے سنی اور نہ اس نے ان باتوں میں کوئی دلچسپی لی۔ وہ تو اپنی ہی الجھنوں میں گرفتار رہی۔ اس کے ہاں آج بالکل نئی نئی کیفیتیں رونما ہو رہی تھیں۔ وہ اپنے دل میں اس سپاہی کی طرف سے ایک انوکھا خدشہ محسوس کرتی تھی۔ ساتھ ہی ایک عجیب خواہش یہ بھی بار بار پیدا ہوتی تھی کہ جوکچھ بھی ہو، وہ آج کوئی نیا تجربہ ضرور حاصل کرے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے اعضا سے قوت مقاومت سلب ہوتی جا رہی ہے۔ اب اسے اپنے کو بہاؤ پرچھوڑ دینے ہی میں سکون ملے گا۔
موٹر کے چلنے سے ہوا جو ملی تو آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس نے اپنا سر کھڑکی سے لگا لیا اور سو گئی۔ اسے سپاہی نے جگایا۔ لاری کھڑی تھی۔ ڈبے میں صرف تنہا وہ تھی۔ دونوں طرف چوڑی سڑک پر اونچی اونچی اندھیری عمارتیں دکھائی دیتی تھیں۔ ہندوستانی جوڑا جا چکا تھا، وہ گھبرا کر آنکھ ملتی اٹھ کر جو کھڑی ہو گئی تو لڑکھڑانے لگی۔ سپاہی نے بازو تھام کر ہنس کر کہا، ’’سنبھل کے سنبھل کے۔‘‘ لمس نے ایک برقی لہر دوڑائی۔ بٹی نے اور بھی گھبرا کر پوچھا، ’’کیا ہم لوگ آ گئے؟‘‘
اس نے کہا، ’’ہاں یہ زیرو روڈ ہے۔ تم کہاں جاؤگی؟‘‘ سراسیمہ بٹی نے کہا، ’’منٹو روڈ۔‘‘ اور وہ لاری سے اتر پڑی۔ اس نے ادھر ادھر نظر ڈالی۔ سوائے ایک سائیکل رکشا کے کوئی سواری نہ تھی مگر اس پر بھی کسی کا اسباب لدا تھا۔ نوجوان نے پاس آکر آہستہ سے کہا، ’’میں نے تمہارا اسباب اتروا کر اپنے اسباب کے ساتھ رکشا پر رکھوا لیا ہے۔‘‘
’’مگر تم کہاں جاؤگے؟‘‘ بٹی نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا اور اپنے دل کے دھڑکنے سے ڈر گئی۔
’’تمہارے ساتھ!‘‘ نوجوان نے دانت چمکا کر جواب دیا۔
’’کیا تمہیں بھی منٹو روڈ ہی جانا ہے؟‘‘ اس نے دستی رومال کو مٹھی میں کس کر پوچھا۔
’’نہیں کسی ہوٹل میں جاؤں گا۔‘‘ اس نے اس طرح کہا جیسے اسے تنہا ہوٹل جانا حد درجہ شاق گزرے گا۔
’’پھرمنٹو روڈ جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس نے آخری بار گلے سے پھندا نکالنے کی کوشش کی۔
’’تمہیں پہنچانا جو ہے، دیکھتی نہیں ہو رات سائیں سائیں کر رہی ہے اور منٹو روڈ وہاں ہے۔ جہاں قبرستان ہے۔‘‘
بٹی کی نظروں میں پورا بھیانک منظر پھر گیا۔ چھوٹی بڑی قبریں، کسی پر مجسمے، کسی پر سوانح کے پتھر، کسی پر خالی صلیب، یہ غریب نوجوان ایسی جگہ سے آیا تھا، جہاں لاکھوں ایسی قبریں تھیں جن پر نہ مجسمے تھے نہ پتھر اور نہ صلیب، بس ایک تودہ خاک! یہ چمکتے دانتوں والا سپاہی بھی انہیں قبروں میں سے ایک میں سو سکتا تھا اور اس شہر میں بھی گمنام ہی ہے۔ نہ ماں باپ، نہ اعزاء نہ احباب، اس کے دل میں ایثار کا سوتا پھوٹ نکلا۔ وہ خشک ہونٹوں پر پتلی سی زبان پھرا کے بولی، ’’اچھا تو میں تمہارے ساتھ ہوٹل چلوں گی۔۔۔‘‘ اور دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیے ہوئے رکشا پر بیٹھ گئے۔