بے بسی اور کچھ دنوں تک ہے
بے بسی اور کچھ دنوں تک ہے
آ گئی چاندنی سروں تک ہے
کونسا دور آ گیا صاحب
شعر محدود قافیوں تک ہے
شمس سے جانے کیوں محبت کی
آپ کی حیثیت دیوں تک ہے
جب تمہیں وقت ہو چلی آنا
ہجر کی شب کئی شبوں تک ہے
اس محبت کو کس طرح بھولوں
نقش جس کا پڑا دروں تک ہے
کیوں یہ خوشبو جگہ جگہ پھیلی
پھول پتی تو بس تنوں تک ہے
آپ کی سوچ سے بہت آگے
بس رہی زیست بلبلوں تک ہے
کون بخشے مجھے سفرؔ جنت
شاعری آ گئی لبوں تک ہے