بے سود ہے گفتار جو کردار نہیں ہے
بے سود ہے گفتار جو کردار نہیں ہے
کردار ہو تو حاجت گفتار نہیں ہے
اے دل جلو یہ اشک یہاں دیکھتا ہے کون
اہل جہاں کو ان سے سروکار نہیں ہے
کیا جانے درد دل کہ یہ دنیا ہے سنگ دل
یہ درد یہاں لایق اظہار نہیں ہے
کیوں اپنے دل میں تم لیے پھرتے ہو مروت
اس کا جہاں میں کوئی خریدار نہیں ہے
سارا جہاں سمیٹ لے تو پھر بھی تیرے پاس
کچھ بھی نہیں جو اک دل بیدار نہیں ہے
دنیا میں بہت لازمی ہے عزم مصمم
یہ ہو تو کوئی مرحلہ دشوار نہیں ہے
دل میں نہ درد ہو تو کہاں شاعری بھی ہو
کیا درد ہی سرمایۂ اشعار نہیں ہے
مظلوم کی ہر آہ ہلاتی ہے عرش کو
یہ آہ تو جاتی کبھی بے کار نہیں ہے
انسانیت کے درد کا ہے ترجماں بشیرؔ
یہ بے مروتی کا روادار نہیں ہے