بے سمت و بے خیال تھی اور میں سفر میں تھی

بے سمت و بے خیال تھی اور میں سفر میں تھی
وہ شام پر ملال تھی اور میں سفر میں تھی


ایسے ہی اک سفر میں تھا وہ میرے ساتھ ساتھ
سو قرب سے نہال تھی اور میں سفر میں تھی


اک راستہ طویل تھا رم جھم کا تھا سماں
وہ شام بے مثال تھی اور میں سفر میں تھی


ایسی ہی ایک شام تھی جب وہ چلا گیا
بس غم سے میں نڈھال تھی اور میں سفر میں تھی


بس اتنا یاد تھا مجھے چلنا ہے بے تھکن
ہمت مری بحال تھی اور میں سفر میں تھی


کب شام ڈھل گئی دعاؔ اور رات آ گئی
اب تیرگی سوال تھی اور میں سفر میں تھی