بے سبب ہی کوئی پتھر تو نہ آیا ہوگا
بے سبب ہی کوئی پتھر تو نہ آیا ہوگا
آئینہ آپ نے اوروں کو دکھایا ہوگا
وہ دیوانہ جو محبت سے شناسا ہوگا
اس نے اس راہ میں کیا کچھ نہ لٹایا ہوگا
دشت پہلے کی طرح آج بھی پیاسا ہوگا
ابر برسا بھی تو دریاؤں پہ برسا ہوگا
قہقہہ بار تھا جو شخص بھری محفل میں
آ کے تنہائی میں کچھ سوچ کے رویا ہوگا
حال گلشن کا اسیران قفس کیا جانیں
اے صبا تو ہی بتا تو نے تو دیکھا ہوگا
کون اس دھوپ میں کمرے سے نکلتا انورؔ
جس کو چلنا تھا کڑی دھوپ میں چلتا ہوگا