بے خود ہیں بے خودی کی سزا پا رہے ہیں ہم

بے خود ہیں بے خودی کی سزا پا رہے ہیں ہم
مثل حباب بن کے مٹے جا رہے ہیں ہم


معبود کون مشق عبادت تھے کس لیے
ناحق یہ بوجھ سر پہ لیے جا رہے ہیں ہم


واعظ شراب پینے دے ہم سے گلہ نہ کر
ساقی پلا رہا ہے پئے جا رہے ہیں ہم


ہوگی تری گزر نہ کبھی جس دیار میں
زاہد ہمیں نہ چھیڑ وہیں جا رہے ہیں ہم


آنندؔ کے کرشمے سبھی سوز و ساز ہیں
ہر نے میں صوت غیب سنے جا رہے ہیں ہم