بے چارہ شیر
مریم نے خواب دیکھا
جنگل میں ہے وہ تنہا
اتنے میں جھاڑیوں سے
اک شیر جھٹ سے نکلا
دیکھی جو شکل اس کی
مریم پہ خوف چھایا
بیچاری جی میں سہمی
اب شیر مجھ پہ جھپٹا
پر شیر کا تو اس دم
کچھ اور ہی تھا نقشہ
تھا وہ بہت پریشاں
سہما سا اور ڈرا سا
لٹکی ہوئی تھی گردن
اترا ہوا تھا چہرہ
آنکھوں میں اس کی آنسو
جو دم سے پونچھتا تھا
مریم کو دیکھ کر یہ
بے حد ہوا اچنبھا
ڈھارس بندھی جو اس کی
مریم نے اس سے پوچھا
اے بادشہ سلامت
ہے حال آپ کا کیا
تب اس نے جھرجھری لی
مریم کی سمت پلٹا
پہلے دکھائے پنجے
کھولا پھر اپنا جبڑا
کچھ دیر چپ رہا وہ
پھر آہ بھر کے بولا
کیا پوچھتی ہو مجھ سے
اے میری ننھی گڑیا
بگڑا مرا مقدر
پھوٹا مرا نصیبہ
یا بد دعا ہے اس کی
میں نے جسے ستایا
مجھ میں رہے نہ کچھ گن
اب دانت ہیں نہ ناخن