بیاض دل
بیاض دل کو جو کھولیں تو جستجو ہوگی
ہر ایک صفحۂ ہستی کی گفتگو ہوگی
انہیں یہ ضد کہ نہ آؤ ہماری محفل میں
ہمیں گماں رہا کچھ تو وفا کی خو ہوگی
اسی سبب سے تھا اے نامہ بر تجھے روکا
کہ اب تو بات جو ہوگی وہ روبرو ہوگی
مزاج ان کا سمجھنا کسی کے بس میں نہیں
وفا کی بات پر ایسی بھی تم سے تو ہوگی
دلائیں لاکھ یقین ہم مگر وہ کیوں مانے
جو بات گھر سے چلے گی ہر ایک سو ہوگی
چھپا کے رکھا ہے پلکوں نے اک سمندر کو
جو چشم نم سے گری بوند وہ لہو ہوگی
ستارے ڈوب کے لائے خبر سحر کی اداؔ
کدورتوں کو ہٹاؤ تو دل میں ضو ہوگی