بس اک ذرا خیال ہمیں دوستی کا ہے
بس اک ذرا خیال ہمیں دوستی کا ہے
ورنہ بہت ملال تری بے رخی کا ہے
تو بھی ہے زندگی میں کہیں ہے مجھے یقین
یا یہ بھی احتمال مری سادگی کا ہے
ہے آج جسم و جاں پہ تری یاد کی تھکن
اک خوف میرے دل کو کسی ان کہی کا ہے
واقف ہوں تیرے درد سے لیکن مرے حبیب
اب تو یہ مسئلہ بھی مری زندگی کا ہے
لب ہیں خموش ضبط سے لیکن یہ مسئلہ
آنکھوں میں تیری یاد سے پھیلی نمی کا ہے
رشتوں کے درمیان بہت مطمئن ہوں میں
اس زندگی میں درد تو تیری کمی کا ہے
یہ دن یہ شب یہ پھول سے موسم ترے بغیر
کیسے گزر رہے ہیں گلہ بس اسی کا ہے