بس

گئے لیٹنے رات ڈھلتے ہوئے
اٹھے صبح کو آنکھ ملتے ہوئے
نہا دھو کے کپڑے بدلتے ہوئے
اٹھائی کتاب اور چلتے ہوئے
سویرے کا جب تک کہ اسکول ہے
یہی اپنا ہر روز معمول ہے
کھڑے ہیں سڑک پر کہ اب آئی بس
گزرتا ہے اک اک منٹ اک برس
بس آئی تو رش اس قدر پیش و پس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
بڑھے ہم بھی چڑھنے کو جب سب کے ساتھ
تو ہینڈل پہ تھا پاؤں پیڈل پہ ہاتھ
پسنجر کی وہ بھیڑ وہ بس کا گیٹ
گزرتے ہیں مچھر جہاں پر سمیٹ
کوئی ہو گیا چوٹ کھا کر فلیٹ
کسی کی ہے کہنی کسی کا ہے پیٹ
کھڑے ہوں کہاں پاؤں رکھیں کدھر
اندھیرا ادھر ہے اندھیرا ادھر
مگر حکم چیکر کا ہے آئیے
کھڑے کیوں ہیں آگے بڑھے جائیے
جہاں میں جہاں تک جگہ پائیے
کھسکتے کھسکتے چلے جائیے
ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں
زمیں اور ہیں آسماں اور ہیں