برزخ

اِس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جیسے پورا وجود اَشکوں میں ڈھل گیا۔ وہ جانتی تھی مرادوں کے چاند گہنانے لگیں تو اندھیرے روح میں بس جاتے ہیں پھیلے ہوئے ہاتھوں پر تواتر سے آنسو گر رہے تھے۔وہ اِرد گرد سے بے نیاز پتھرائی زبان اور خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپتا بدن لئے امام بارگاہ کی دیوار سے لگی کھڑی تھی۔تشنگی سِوا ہونے لگی اب کی بار فرات پر ننگی تلواروں کے نہیں بے نام و ننگ رواجوں کے پہرے تھے ۔سورج کی نیزے کی اَنی جیسی تیز کرنیں بدن میں پیوست ہو رہی تھیں پورپور سے لہو رس رہا تھا اُس کے ہاتھ اُٹھے اور سینے پر پڑنے لگے لہو جلنے لگا، حلق میں ببول اُگ آئے۔
’’ بتول کا کیا ہوگا؟،،اماں کی آواز میں پریشانی تھی۔
’’ خاندان میں اِس کے جوڑ کا کوئی نہیں بچا جو بھی رشتہ پوچھتا ہے جانے کیوں پلٹ کر نہیں آتا،،
’’ میر علی ،میری بیٹی ، میری سوہنی بیٹی،،
اماں سسک اٹھی۔
’’کچھ کرو میر علی مجھ سے بیٹی کا دکھ برداشت نہ ہو گا،،
امّاں کی سسکیاں چیخوں میں ڈھلنے لگیں۔
ماتمی حلقہ بڑا ہو گیا تھا جانے وہ کون تھیں آسیب کی طرح کہیں سے نمودار ہو کر حلقے میں آن کھڑی ہوتیں سر نہیوڑائے ،منہ ہی منہ میں کچھ بُڑ بُڑ اتے ہوئے۔ اُن کے سوکھے ہونٹ اُن کی جانکنی میں ڈھلتی پیاس کے گواہ تھے۔پاؤں کے چھالوں سے رِستا خون پکار پکار کر خاردار راستے کی منادی کر رہا تھا۔ سفید کفن جیسے لبادے دھول اور راکھ میں اَٹے ہوئے تھے ماتمی لے تیز ہو رہی تھی۔ تیز دھار تلواریں، لپکتی بر چھیاں،آرزوؤں کے لاشے کٹ کٹ کر گر رہے تھے اُٹھتے ہاتھ تسلسل سے سینوں پر پڑنے لگے۔
’’میر علی میری بیٹی کی عمر نکلتی جا رہی ہے اس کے ساتھ کی دو دو بچوں کی مائیں بن گئیں ہیں،،
اماں کی سسکیاں عرش کو چھو رہی تھیں۔
’’میری قبر بھی سلگے گی،،
لیکن میر علی برادری اور زمین کے بیچ پِستا رہا۔
’’ سکینہ کیا کروں تم تو جانتی ہو برادری سے باہر رشتہ ممکن نہیں ہے،،میر علی کی آواز میں ایک بچارگی سی تھی۔
’’آخر کیوں میر علی؟،،اماں سراپا سوال تھیں۔
’’یہ تم پوچھ رہی ہو، ؟تم تو جانتی ہو نا رسم و رواج کو،،میر علی کی آواز میں تُرشی تھی۔
’’کیا رواج اولاد سے زیادہ اہم ہوتے ہیں؟،،
اماں بہت بھولی تھی پتھر سے سر پھوڑ رہی تھیں۔
’’ زندوں کی اور کتنی قبریں بناؤ گے میر علی بتاؤ،،اماں پھٹ پڑیں۔
’’کب تک جھوٹی شان کا طوق گلے میں لٹکائے پھرو گے؟،،
نا انصافی کی دُھائی دیتے دیتے امّاں ایک دن خاموشی سے ڈھ گئیں ریت کی کسی بھر بھری دیوار کی طرح ۔میر علی نے جانے کس دل سے انھیں وہ دو گز کی زمین بھی سونپی ہو گی۔
پھر ایک دن میر علی زمین کی چاہ میں بیٹی کو زندہ گاڑ کر خود بھی اُسی زمین کی کوکھ میں اُتر گیا ۔
’’اِس کا حق بخشوا دیں آخر کب تک یوں بٹھائے رکھیں گے؟،،
یہ ادا سائیں کی بیوی تھی۔
’’ امّاں باوا تو گئے ہم رہ گئے ہیں زمانے کے طعنے سہنے کے لئے،،
’’بتول تو جانتی ہے نا بہشتن امّاں کو تیرے بیا ہ کا کتنا ارمان تھااب تیرے نصیب کہ وہ اپنا ارمان اپنے ساتھ قبرمیں ہی لے گئیں،،بھابھی کی آواز جذبات سے عاری تھی
’’تیرا یوں بیٹھنا ہمیں گنہگار کر رہا ہے تیرے ادا سائیں کہہ رہے تھے کہ....،،
بھا بھی کی زبان لڑ کھڑا گئی۔
’’بھابھی جب خون پانی ہو جائے تو آخری خواہش پوچھنا بیکار ہوتا ہے پھرصرف فیصلہ سنایا جاتا ہے کیا مجھے نہ کہنے کا حق ہے؟،،
بتول بہت دکھی ہو رہی تھی۔ بھابھی خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی۔
بے نیازی سے اِدھر اُدھر گزرتے لوگ اِس بات کے گواہ تھے کہ وہ ماتمی حلقہ نہ تو کسی کو دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی وہ نوحے کوئی اور سُن سکتاہے۔بتول دونوں ہاتھوں سے سینہ پیٹ رہی تھی اُس کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔
اللہ رکھی سفید سلک کا جوڑا لے آئی تھی۔
’’بی بی تو نصیب والی ہے اللہ کے کلام کا ساتھ ملا،،
اللہ رکھی نے جوڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’کہا سُنا معاف کرنا،،اُس نے بتول کے پاؤں چھوئے۔ بتول نے ایک نظر اُسے دیکھا
’’مجھے اللہ کے کلام کا نہیں اللہ کے کسی بندے کا ساتھ چاہئیے تھا،،
بتول کا دل چاہا کہ وہ اتنی زور سے چیخے کہ پہاڑ دُھنی ہوئی روئی کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر اُڑنے لگیں قبریں کھل جائیں اور مردے باہر نکل آئیں لیکن اِس نے خاموشی سے پاؤں پیچھے کر لئے۔
’’ ابھی کچھ دیر میں مولوی صاحب آتے ہونگے، تم تیار ہو جاؤ،،
بھابھی کے ہاتھ میں سبز مخملیں غلاف میں لپٹا ہوا قرآن تھا ۔نوحے چیخوں میں بدل رہے تھے۔ہاتھوں اور پاؤں میں رسیوں کی بندشیں بہت سخت تھیں رگوں میں خون کا بہاؤ رکنے لگا.... یا کریم، یا رؤف۔
’’ بتول بی بی میرے ساتھ ساتھ بولو ،،
مولوی صاحب نے تلاوت کرنے کے بعد بتول سے کہا۔
’’میں بتول بنتِ میر علی اپنے ودیعت من اللہ حق سے بنامِ خدا بحقِ اپنے والدین اور بھائیوں کے دستبرار ہوتی ہوں روزِ محشر اِس بابت میرا کسی پر کوئی دعویٰ نہیں ہو گا اور قرآن کو اپنا حاکم مانتی ہوں،،
بڑی بھابھی نے سبز مخملیں غلاف میں لپٹا ہوا قرآن اِس کی گود میں رکھا اور اللہ رکھی کو مٹھائی لانے کو کہا۔ شامِ غریباں نے مقتل گاہ کو ڈھانپ لیا پاؤں کے نیچے انگارے سلگ اُٹھے ......یا نصیر، یا حفیظ ......بتول کا جلتا سینہ دھیرے دھیرے راکھ ہونے لگا۔ سرد ہوائیں راکھ پر جمے پھولوں کو اُڑاتیں رہیں اور بتول کے بالوں میں چاندی اُترتی رہی۔
’’بتول پھوپھو آپ نے سُنا سب کیا کہہ رہے ہیں،،
رُباب سسک اُٹھی بتول نے ایک نظر اُسے دیکھا۔
’’جانتی ہوں بچے،،اِس نے بہت پیار سے رُباب کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’ وہ یہ سب کیسے کر سکتے ہیں،،رُباب کی آنکھوں میں حیرت اور دکھ تھا۔
’’میں بابا جانی سے خود بات کروں گی،،اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
’’ نا میری بچی ایک لفظ بھی نہیں ذہنوں اور دلوں پر لگے قفل اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹتے ،،
بتول نے اُسے تھام لیا۔
’’تیر ا بو لنا بات بگاڑ دے گا،،
’’پھوپھو میں بھی بھائی کی طرح اپنی من مانی کر سکتی تھی لیکن ہمیشہ بابا کی عزت کا پاس رہااُس کا یہ صلہ؟ ،،
وہ بے حد دکھی تھی۔
’’ اگر یہی کرنا تھا تو جاہل رہنے دیا ہوتا خواہ مخواہ اتنے سال کتابوں کا بوجھ لادے رکھا،،
’’ آخر ہمارے کربلائی گھروں میں سانس لیتی یہ یزیدیت کب ختم ہو گی،،
رُباب کا بس نہیں چل رہاتھا کہ دنیا کو آگ لگا دے۔
’’ہر ایک کی اپنی اپنی کربلا ہوتی ہے جو لہو مانگتی ہے وہ لہو چاہے تن سے پھوٹے یا من کے کسی اَن دیکھے گھاؤ سے کبھی کبھی زندگی ہارنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر بابِ خلیل وا ہوتا ہے،،
وہ رُباب کی پیشانی چومتے ہو ئے بولی۔
’’ لیکن اب انھیں رکنا ہوگااِس گھر میں کوئی اور بتول زندہ قبر میں نہیں اُترے گی یہ میرا تجھ سے وعدہ ہے،،
رُباب نے اُس کی گود میں سر رکھ لیا وہ ویران آنکھیں لیے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگی۔
دوپہر میں بڑی بھابھی آئی تھی۔ رُباب بڑے ادا سائیں کی پہلوٹھی کی اولاد تھی اِس سے چھوٹا ایک بیٹا تھا جو اپنی پسند کی شادی رچا کر بیٹھ گیا تھا۔رُباب کو ادا سائیں نے بہت پڑھایا تھا۔ اِسی چکر میں اُس کی عمر نکل گئی۔ امداد علی شاہ کی بیٹی ولایت سے ڈاکٹری پڑھ کر آئی تو میر حسن کیسے پیچھے رہ جاتا وہ اپنے کلف لگے شملے کو ڈھلکتا ہوا کب دیکھ سکتا تھا۔ رُباب بتیس سال کی ہونے کو آئی تھی خاندان میں اِس کی عمر کے جو د و ایک لڑکے تھے اُن کی یا تو شادی ہو چکی تھی یا نشانی کروا دی گئی تھی ۔دوسرا بھابھی کو اِن اَن پڑھوں میں بیٹی دینے کا شوق بھی نہ تھا اُسے جانے کیوں زُعم تھا کہ وہ میکے میں بیٹی لگا لے گی۔
’’ نہ بی بی ہم غیر سیدوں سے بیٹیاں لیتے ہیں دیتے نہیں،،
ادا سائیں کی آواز کافی بلند تھی، گمان کی ننگی پیٹھوں پر سفر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اَنگ اَنگ میں درد بھر جا تا ہے اور جب پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی جائے تو حقیقتوں کے بھیانک سائے ڈرانے لگتے ہیں یہ بات بھابھی پر آج عیاں ہوئی تھی۔
’’بتول مجھے معاف کردے میں نے تیرے ساتھ ظلم کیا تیرے اچھے رشتے آئے تھے لیکن زمین کا بٹوارہ نہ مجھے منظور تھا نہ میر حسن کو اِس لیئے ہم منع کر دیتے رہے،،
’’ اور امّاں؟ امّاں کو خبر تھی اِس بات کی،،
بتول کی آواز چٹخ رہی تھی اندر اُگے ریگزا ر میں ریت اُڑنے لگی سائیں سائیں کرتی ہوائیں ضبط کی دیواروں سے سر پٹخ رہی تھیں دکھ کے زہریلے ناگ روح کو ڈسنے لگےْ
’’امّاں کو کیسے خبر ہوتی رشتے والوں کو باہر ہی باہر سے منع کر دیا جاتا تھا،،
آگہی کے عذاب سے بتول آج آشنا ہوئی تھی کس قدر جان لیوا ہوتا ہے تن سے جان نچوڑ لیتا ہے۔ رَگ رَگ میں بے چینی بہنے لگی اُسے زندگی میں پہلی باراِن سب سے نفرت محسوس ہوئی بے پناہ نفرت۔
’’صرف پچھتاوا احساسِ گناہ کو کم نہیں کر سکتا ۔دائرے میں گھومتی زندگی آپ کو کبھی نہ کبھی اُس مقام پر لے آتی ہے جہاں سود سمیت ادائیگی کرنی ہو تی ہے یہ توازن کے لیے بہت ضروری ہے،،
بتول کہنا چا ہتی تھی لیکن اُسے لفظوں کا زیاں منظور نہ تھا۔ وقت نے اُسے مَن مارنا سکھا دیا تھاسو اُس کی چپ نہ ٹوٹی۔ گو منصفی کی فصیلوں پر جلتے دیوں کی لَو بہت تیز تھی لیکن اُسے ایسا انصاف منظور نہیں تھا۔ اُسے رسم و رواج کے بندی لوگوں سے نہیں رواجوں سے ٹکرانا تھا۔ اُن فصلیوں کو توڑناتھا جن کے اندر بنے قبرستان میں آسیب کی طرح منڈلاتی روحیں اِس برزخ سے رہائی کی منتظر تھیں۔
’’ مجھے کوئی گلہ نہیں ہے،،
بتول کے لہجے میں وہی ازلی صبر رچا ہوا تھا۔
’’تم فکر مت کرو میں ادا سائیں سے بات کروں گی، کوئی اور بتول نہیں اب بس،،
’’تیری بات وہ مانے گا،،
بے یقینی کی گیلی زمین پر بھابھی کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔
’’نہ مانے لیکن اب کی بار بتول ہار نہیں مانے گی،،
وقت نے بتول کے لہجے میں یہ کیسا یقین اُتار دیا تھابھابھی اُسے دیکھتی رہ گئی۔ مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے لمحوں کو ہوا جانے کہاں اُڑا کر لے گئی تھی پچھتاوے کا زہر روح میں اُتر نے لگا۔ لیکن کچھ باقی نہ بچا تھا سوائے آنسوؤں کے جو تلافی کے لئے کافی نہ تھے ۔
بتول نے میر حسن سے بات کی وہ اُلٹا اُسی پر برس پڑا۔
’’دیکھ بتول تو اِن معاملات میں نہ پڑ ہم ہیں نا سنبھال لیں گے۔رُباب میری بیٹی ہے اور میں اِس کا بُرا بھلا خوب جانتا ہوں،،
میر حسن کا لہجہ حتمی تھا’’ نہ غیر سید نہ غیر برادری،،
لہو کے چھینٹے چاروں طرف اُڑنے لگے زنجیروں میں لگی تیز دھار چھریوں سے بدن کٹنے لگا درد جانکنی میں ڈھل گیا نوحے اور چیخیں در و دیوار میں سرائیت کرنے لگے ۔ دھواں دھواں وجودوں کا ماتمی حلقہ پورے کرّہ ارض پر پھیل گیا۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی تیز ہوا اپنے دوش پر جلتے خیموں کی راکھ لیے مقتل گاہ میں چکرانے لگی۔ رات جھکتی چلی آ رہی تھی۔
بھابھی کی آنکھیں اُس کے کٹتے کلیجے کی گواہ تھیں۔ لیکن بے بسی نے وہ دھول اُڑائی تھی کہ کچھ نظر آنا ہی بند ہو گیا تھا۔پیر جلی بلی کی طرح اندر باہر ڈولتی بھابھی کو بتول سے آنکھیں چار کرنا مشکل تھا لیکن اُمید کی ڈوری بھی کہیں اُسی کے دامن سے بندھی ہو ئی تھی۔
’’ٹھیک ہے ادا سائیں تم جیتے میں ہاری،،
بتول کی آنکھیں بنجر اورچہرہ سپاٹ تھا.وہ پچھلے کئی دنوں سے میر حسن کی منت سماجت کرنے میں لگی ہو ئی تھی۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی اپنا ایک ایک زخم اُس کے آگے کھول کر رکھ دیا۔ خود ننگی ہو گئی لیکن ادا سائیں کی نہ ہاں میں نہ بدلی۔
بتول نے علی مراد کو بُلا بھیجا تھاعلی مراد پنُھل چچا کا بیٹا تھا جو رشتے میں امّاں کے بھائی تھے وہ بتول کی بہت عزت کرتا تھا۔
’’ادا سائیں گاڑی منگوا دو ہمیں منت کے دھاگے رکھنے امام بارگاہ تک جانا ہے،،
’’کون کون جا رہا ہے؟ ،،وہ مشکوک تھا۔
’’میں اور رُباب چاہو تو ساتھ آ سکتے ہو،،بتول کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔
’’نہیں تم جاؤ میں جان محمد کو تمہارے ساتھ کر دیتا ہوں،،
دعا کو اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی اوک میں بھرے آنسو جھٹک کر بتول نے آنکھیں کھولیں تو وہ امام بارگاہ میں اکیلی تھی۔ رُباب اپنے کلاس فیلو نعمان لاشاری سے نکاح کے بعد ، بتول کی دعائیں پلو میں سمیٹے وہاں سے رخصت ہو چکی تھی۔ بتول اُٹھی اور بیس سال بعد پہلی بار قرآن کو کھول کر لبوں سے لگایا اور بلند آواز سے تلاوت کرنے لگی۔