برطانیہ میں مقیم سکھوں نے خالصتان کے حق میں فیصلہ سنا دیا

برطانیہ بھر سے ہزاروں سکھوں نے 31 اکتوبر 2021 کو برطانوی پارلیمنٹ کے قریب کوئین الزبتھ سینٹر میں سکھوں کے آزاد وطن خالصتان کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں حصہ لیا۔  اس دن ، 1984 میں، سکھ تحریک کو روکنے کے لیے، اس وقت کی بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو آپریشن بلیو اسٹار کا حکم  دینے پر  قتل کر دیا گیا تھا۔

ووٹنگ، جو صبح 9 بجے شروع ہوئی اور شام 6 بجے تک جاری رہی،  پنجاب ریفرنڈم کمیشن (PRC) کی نگرانی میں ہوئی، جس کا اہتمام (SFJ)  Sikhs for Justice نے کیا تھا۔

ریفرنڈم میں حصہ لینے والے ہزاروں افراد نے اس سوال کا جواب دیا: "کیا ہندوستان  کے زیر نگیں پنجاب کو ایک آزاد ملک ہونا چاہیے؟"۔ 100 سے زائد گوردواروں سے چارٹرڈ بسوں نے ووٹرز کو کوئین الزبتھ سینٹر پہنچایا جہاں ووٹنگ کے لیے ہال میں جانے کے لیے دن بھر بڑی قطاریں  لگی رہیں۔  اس استصواب رائے میں  200 سے زیادہ سکھوں نے رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔

گروپتونت سنگھ پنن نے کہا کہ SFJ ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کی وکالت کرنے والا گروپ ہے جو سکھوں کے حق خودارادیت کے لیے مہم کی سربراہی کر رہا ہے، سکھوں کا یہ حق اقوام متحدہ کے  چارٹر کے تحت  ہر شخص کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جس کی ضمانت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے طویل عرصے سے یہ پروپیگنڈا کر رکھا تھا کہ خالصتان تحریک کے پیچھے صرف چند درجن سکھ ہیں لیکن  اس  استصواب رائے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ خالصتان کو دنیا بھر میں لاکھوں سکھوں کی حمایت حاصل ہے۔

گروپتونت نے کہا کہ ریفرنڈم کے نتائج کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا اور وسیع تر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔ ایک برطانوی انسانی حقوق کے کارکن،  پرم جیت سنگھ پما جو اپنی بھارت  کو حوالگی کے معاملے پر ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان  وجہِ تنازع   بنے ہوئے ہیں، نے کہا کہ سکھوں نے ہزاروں کی تعداد میں ریفرنڈم میں شرکت کرکے ہندوستانی حکومت کے اقدامات پر اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔

پرم جیت سنگھ پما، جو  خالصتان ریفرنڈم کے لیے یو کے کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں، کے بقول  کامیاب شرکت نے ظاہر کیا کہ سکھ کبھی نہیں بھولیں گے کہ ہندوستان نے سکھوں کے ساتھ ان کی شناخت اور تاریخ کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سکھوں کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کی نجات خالصتان نامی آزاد وطن میں ہے۔

 گروپتون سنگھ پنن، جنرل کونسل سکھس  فار جسٹس (SFJ)

نے کہا: ’"آج ہزاروں سکھوں نے ہندوستان سے آزادی کے لیے اپنے جمہوری  حق کا استعمال کیا ہے۔ سکھ بھارت سے آزادی حاصل کریں گے اور یہ کسی بھی قیمت پر ہو گی۔ یہ ہمارا پیدائشی حق ہے اور ہم بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قوانین کے تحت آزادی کا حق حاصل کریں گے۔"

انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے بعد ریفرنڈم امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پنجاب کے خطہ سمیت دیگر ممالک میں ہوگا۔

دپندرجیت سنگھ، جن کی خالصتان سے وابستہ ایک دہائی کی طویل تاریخ ہے، نے کہا کہ پنجاب ریفرنڈم پوری دنیا کے سکھوں کی آواز ہے۔  آج یہ  دنیا کو دکھا دیا گیا  ہے کہ اس آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔

ایک سرکردہ سکھ کارکن گروچرن سنگھ نے کہا کہ بھارت ایک فاشسٹ ریاست ہے جو صرف ہندوؤں کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو برداشت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت نے ریفرنڈم کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے لیکن سکھوں کی  ثابت قدمی غالب آئی اور ہزاروں افراد خالصتان نامی ایک آزاد وطن کے لیے اپنی آواز درج کرانے کے لیے باہر نکل آئے۔

منتظمین نے کہا کہ اگرچہ یہ ایک غیر سرکاری اور غیر پابند ریفرنڈم ہے،  لیکن  اس استسواب رائے کو اقوام متحدہ سے ہندوستان کے زیر انتظام علاقے پنجاب کو ایک آزاد وطن کے طور پر قائم کرنے کے لیے باضابطہ ووٹنگ کی   درخواست کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

 استسواب رئے سے ایک ہفتہ قبل سکھس فار جسٹس نے ہندوستان کا ایک نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں نہ صرف پنجاب بلکہ ہریانہ، ہماچل پردیش اور راجستھان اور اتر پردیش کے کئی اضلاع کو خالصتان کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

        سکھ تو اپنی جمہوری تحاریک کے ذریعے اپنے بنیادی  حق، آزادی کے لیے آواز بلند کر رہےہیں ۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اقوام عالم بالخصوص  عالمی طاقتیں ان کے اس مطالبے پر کس  پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی ہیں۔  کیا ان کی تحریک کوئی ثمر لاتی ہے یا یہ بھی کشمیریوں کی آواز کی  طرح مفادات تلے دب کر رہ جاتی ہے؟