بیٹھے بیٹھے مسکرا دی خود ہی گھبرائی کبھی

بیٹھے بیٹھے مسکرا دی خود ہی گھبرائی کبھی
پیار کے موسم میں ایسی بھی گھڑی آئی کبھی


آپ کا دامن تو ساحل ریت کا ثابت ہوا
موج اشک خوں بھی جس کو تر نہ کر پائی کبھی


اپنے سر لے کر زمانے بھر کی ساری تہمتیں
دفن کر دی اپنی خاموشی میں گویائی کبھی


ساتھ گزرے چند لمحوں کی سنہری یاد سے
چلنے لگتی ہے مرے سانسوں میں پروائی کبھی


زندگی بھر آپ اپنے آئنے میں گم رہے
شخصیت یا شکل میری بھی نظر آئی کبھی


چھوڑیئے یہ تو ہمارے پیار کا ہے معجزہ
دور اب سے آپ بھی ہوتے تھے ہرجائی کبھی


اک کرن ہی چاند کی بن کر میں ہو جاتی نثار
آرزو لیکن عیاںؔ اپنی نہ بر آئی کبھی