بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا
بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا
کرشمہ ہے دل ناشاد کا یوں شاد ہو جانا
کوئی حالت نہیں رہتی ہے یکساں دیدہ و دل میں
کبھی زنجیر ہو جانا کبھی آزاد ہو جانا
بڑی بے انت ہمت چاہئے راہ محبت میں
یہ ظاہر یوں کوئی مشکل نہیں فریاد ہو جانا
اگر بے سود ہو سب آہ و زاری سامنے اس کے
تو پھر خاموش رہ کر صورت فریاد ہو جانا
محبت کے نگر کا بس یہی دستور ٹھہرا ہے
کہ راہ عشق میں پوری طرح برباد ہو جانا
ہماری خاکساری کا یہی انعام کیا کم ہے
مٹا کر زندگی زندہ دلوں کی یاد ہو جانا
بڑی حد تک ظفرؔ اس کشمکش سے ہم نکل آئے
انا تسخیر کرنا سایۂ ہم زاد ہو جانا
وفور نغمگی دل بستگی شائستگی مضمون
تصور میں رہا ہے مانی و بہزاد ہو جانا