بڑے بھیا
میں چھوٹا ہوں مرے بھیا بڑے ہیں
جہاں دیکھو وہیں سر پر کھڑے ہیں
مجھے ہر وقت کرتے ہیں نصیحت
نہ جانے کیوں مرے پیچھے پڑے ہیں
مجھے پڑھنے کو یوں کہتے ہیں اکثر
کہ جیسے خود وہ ایم اے تک پڑھے ہیں
پڑھاتے ہیں وہ جب تاریخ مجھ کو
میں یہ کہتا ہوں یہ سب قصے گڑھے ہیں
کریں عرفانؔ اب ہم کس سے شکوہ
وہ پاپا کے بہت ہی سر چڑھے ہیں