بچپن

نئی نئی دنیا لگتی تھی نئے نئے سے لوگ
کھلتی کلیاں صبح سویرے کیسے مدھم مدھم
حیرت ہوتی پھول پہ کیسے جم جاتی ہے شبنم
چڑیوں کی آواز سناتی گھنگرو جیسی چھم چھم
بارش کی بوندیں گرتیں پیڑوں پہ رم جھم رم جھم
برگد کی داڑھی کو پکڑے بچے پینگ بڑھاتے
کوے مینا کوئل چڑیاں مل کر شور مچاتے
ماں کے ہاتھوں کی اک خوشبو بستی تھی روٹی میں
بنا شکر لگتا تھا میٹھا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی
تھا کتنا معصوم سا بچپن بات نہ ہم نے جانی
وہ پنچھی میٹھی آوازیں نور سی اجلی بھور
پھسل گئی کیوں ہاتھ سے اپنے وہ سپنوں کی ڈور