بچے کی حسرت

خدا دیتا ہمیں بھی پر تو سوئے آسماں جاتے
پرندوں کی طرح اڑ کر یہاں سے ہم وہاں جاتے


کبھی اس ڈال پر رہتے کبھی اس ڈال پر جاتے
درختوں سے کبھی اڑ کر کسی چھت پر اتر جاتے


سفر کے واسطے محتاج گاڑی کے نہ ہم ہوتے
نہ نظروں میں کسی بھی راستے کے پیچ و خم ہوتے


نہ ہوتی کوئی پابندی نہ ہوتی فکر سرحد کی
نہ کوئی روکتا ہم کو نہ لگتی پاؤں میں بیڑی


پرندوں کی طرح ہوتے اگر آزاد دنیا میں
نظر کیوں ڈالتے ہم پر کبھی صیاد دنیا میں