توقیر تقی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے

    یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے دل جو اس وقت مرے ہات سے نکلا ہوا ہے مڑ کے دیکھے بھی تو پتھر نہیں ہوتا کوئی جانے کیا شہر طلسمات سے نکلا ہوا ہے رات یہ کون سا مہمان مرے گھر آیا سارا گھر حلقۂ آفات سے نکلا ہوا ہے حجرۂ ہجر میں بیٹھا ہے جو مجذوب صفت عرصۂ شور مناجات سے نکلا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی

    کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی روشنی پہلے نہ تھی دل کی فضا میں ایسی اور پھر اس کے تعاقب میں ہوئی عمر تمام ایک تصویر اڑی تیز ہوا میں ایسی جیسے ویران حویلی میں ہوں خاموش چراغ اب گزرتی ہیں ترے شہر میں شامیں ایسی آنکھ مصروف ہے زنبیل ہنر بھرنے میں کس نے رکھی ہے کشش ارض و سما میں ...

    مزید پڑھیے

    کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا

    کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا میں شاخ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا بدن میں دل تھا معلق خلا میں نظریں تھیں مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مرا ضبط جسے میں پال رہا تھا کوئی درندہ تھا خوشی نے ہاتھ بڑھایا تھا میری جانب بھی مگر وہاں جہاں ہر شخص ...

    مزید پڑھیے

    موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے

    موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے دریا کے سارے رنگ مری تشنگی میں آئے پھر ایک روز آن ملا ابر ہم مزاج مٹی نمو پذیر ہوئی تازگی میں آئے دامن بچا رہے تھے کہ چہرہ بھی جل گیا کس آگ سے گزر کے تری روشنی میں آئے یہ میں ہوں میرے خواب یہ شمشیر بے نیام اب تیرا اختیار ہے جو تیرے جی میں آئے اک ...

    مزید پڑھیے

    صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی

    صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی غم کی حدت سے پگھلتا نہیں تو بھی میں بھی اب زمانے میں محبت ہے تماشے کی طرح اس تماشے سے بہلتا نہیں تو بھی میں بھی ان سلگتی ہوئی سانسوں کو نہیں دیکھتے لوگ اور سمجھتے ہیں کہ جلتا نہیں تو بھی میں بھی اپنا نقصان برابر کا ہوا آندھی میں اب کسی شاخ پہ ...

    مزید پڑھیے

تمام