تفضیل احمد کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    اول وہی سیراب تھا ثانی بھی وہی تھا

    اول وہی سیراب تھا ثانی بھی وہی تھا پتھر سے گزرتا ہوا پانی بھی وہی تھا نوخیز دعاؤں کا شجر کار بھی نکلا بوسیدہ تمناؤں کا بانی بھی وہی تھا آنکھوں پہ جو رکھتا رہا رومال تسلی نم دیدہ گر نقل مکانی بھی وہی تھا آیات ارادہ پہ وہی نور کی انگلی اوراق سیہ تر کا گیانی بھی وہی تھا کوکب سا ...

    مزید پڑھیے

    شہر کو چوٹ پہ رکھتی ہے گجر میں کوئی چیز

    شہر کو چوٹ پہ رکھتی ہے گجر میں کوئی چیز بلیاں ڈھونڈھتی رہتی ہیں کھنڈر میں کوئی چیز چاک ہیں زخم کے پانی میں ہوا میں ناسور مٹھیاں تول کے نکلی ہے سفر میں کوئی چیز بارہا آنکھیں گھنی کرتا ہوں اس پہ پھر بھی چھوٹ رہتی ہے نگہ سے گل تر میں کوئی چیز کبھی بیٹھک سے رسوئی کبھی دالان سے ...

    مزید پڑھیے

    گھنے ارمان گاڑھی آرزو کرنے سے ملتا ہے

    گھنے ارمان گاڑھی آرزو کرنے سے ملتا ہے خدا جاڑے کی راتوں میں وضو کرنے سے ملتا ہے ہوا کی دھن درختوں کا سخن نغمے ہیں لیکن فن دلوں کے چاک میں آنکھیں رفو کرنے سے ملتا ہے خدا ان کو شعور تشنگی دیتا تو اچھا تھا انہیں پیاسوں میں کیا شغل سبو کرنے سے ملتا ہے یقیں دنیا نہیں کرتی مگر ہے ...

    مزید پڑھیے

    تنہا کر کے مجھ کو صلیب سوال پہ چھوڑ دیا

    تنہا کر کے مجھ کو صلیب سوال پہ چھوڑ دیا میں نے بھی دنیا کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا اک چنگاری اک جگنو اک آنسو اور اک پھول جاتے ہوئے کیا کیا اس نے رومال پہ چھوڑ دیا پارہ پارہ خوشبو چکراتی ہے کمرے میں آگ جلا کے شیرہ اس نے ابال پہ چھوڑ دیا پہلے اس نے برسائے آکاش پہ سارے تیر پھر دھیرے ...

    مزید پڑھیے

    لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو

    لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو زمیں پھر سے مرتب ہو فلک پر نظر ثانی ہو ابھی تک ہم نے جو مانگا ترے شایاں نہیں مانگا سکھا دے ہم کو کن کہنا جو تیری مہربانی ہو خس بے ماجرا ہیں خار بے بازار ہیں تو کیا نمو شہکار ہم بھی ہیں ہماری بھی کسانی ہو ملیں گے دھوپ کی ماری چٹانوں میں بھی خواب ...

    مزید پڑھیے

تمام