صالح ندیم کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    اس کا نیزہ تھا اور مرا سر تھا

    اس کا نیزہ تھا اور مرا سر تھا اور اک خوش گوار منظر تھا کتنی آنکھوں سے ہو کے گزرا وہ اک تماشہ جو صرف پل بھر تھا دل کے رشتوں کی بات کرتے ہو ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا انگلیوں کے نشان بول پڑے کون قاتل تھا کس کا خنجر تھا ہم اصولوں کی بات کرتے رہے اور وہ تھا کہ اپنی ضد پر تھا

    مزید پڑھیے

    شدت کرب سے کراہ اٹھا

    شدت کرب سے کراہ اٹھا جب اٹھا درد بے پناہ اٹھا میرے آگے چلا نہ زور طلسم میرے پیچھے غبار راہ اٹھا بے سبب رات بھر چراغ جلے میں دھواں بن کے خواہ مخواہ اٹھا دل بغاوت پہ کب تھا آمادہ سر تھا جو پیش بادشاہ اٹھا چھوڑ دے آج شرم کا دامن اے پری زاد اب نگاہ اٹھا مجھ سے قائم تھی بزم کی ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم سانپوں کی آہٹ اور میں

    ہر قدم سانپوں کی آہٹ اور میں آگے پیچھے سرسراہٹ اور میں اک طرف چڑھتے ہوئے دریا کی سانس اک طرف جنگل کی آہٹ اور میں گاؤں کی پگڈنڈیوں سے شہر تک چہرہ چہرہ بوکھلاہٹ اور میں ایک چہرہ روشنی سا ذہن میں بند کمرہ جگمگاہٹ اور میں سرد ماتھے پر پسینے کی تپش شمع کی لو تھرتھراہٹ اور میں اک ...

    مزید پڑھیے

    واپس گھر جا ختم ہوا

    واپس گھر جا ختم ہوا کھیل تماشا ختم ہوا پیچھے مڑ کر کیا دیکھو جو پیچھے تھا ختم ہوا دھیرے دھیرے درد اٹھا رفتہ رفتہ ختم ہوا تم بھی ہارے میری ہار جانے کیا کیا ختم ہوا صحرا دریا جنگل شہر لمبا رستہ ختم ہوا پیپل برگد پنگھٹ پر آنا جانا ختم ہوا کس کی یادیں کس کا نام درد کا رشتہ ختم ...

    مزید پڑھیے

    وجود مٹ گیا پروانوں کے سنبھلنے تک

    وجود مٹ گیا پروانوں کے سنبھلنے تک دھواں ہی اٹھتا رہا شمع کے پگھلنے تک کسے نصیب ہوئی اس کے جسم کی خوشبو وہ میرے ساتھ رہا راستہ بدلنے تک اگر چراغ کی لو پر زبان رکھ دیتا زبان جلتی بھی کب تک چراغ جلنے تک جہاں بھی ٹھہرو گے رک جائے گا تمہارا وجود تمہارے ساتھ چلے گا تمہارے چلنے ...

    مزید پڑھیے

تمام