میں نے صرف اپنے نشیمن کو سجایا سال بھر
میں نے صرف اپنے نشیمن کو سجایا سال بھر فصل گل بھی اس لیے آئی ہے اب کے ڈال بھر بد گمانی آئی تو لے جائے گی رشتے تمام دیکھنا نکلے گی ان شیشوں کی ہستی بال بھر وہ زمانہ ٹھیک تھا ایمان لانے کے لیے حیدر کرار بھر خیر اور شر دجال بھر آج میری عرض پر زلفیں اگر کھولے گا وہ کل حسد کی آگ میں جل ...