Safdar Meer

صفدر میر

  • 1923 - 1998

صفدر میر کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    پھر کوئی آ رہا ہے دل کے قریب

    پھر کوئی آ رہا ہے دل کے قریب داغ تازہ کھلا ہے دل کے قریب پھر کوئی یاد سایہ افگن ہے دھندلی دھندلی فضا ہے دل کے قریب پھر کوئی تازہ واردات ہوئی جمگھٹا سا لگا ہے دل کے قریب آج بھی چین سے نہ سوئیے گا پھر کہیں رت جگا ہے دل کے قریب کل کھلے تھے یہاں نشاط کے پھول اب دھواں اٹھ رہا ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    بہت جی ترستا رہا رات بھر

    بہت جی ترستا رہا رات بھر جو ہم سے بھی مل لو ملاقات بھر بساط تمنا الٹتے ہو کیوں کہ بازی یہ کھیلیں گے ہم رات بھر ہے آنکھوں میں طوفاں بقدر جنوں ہے دل میں تمنا خرابات بھر نہیں مانگتے مستیٔ جاوداں ہمیں چاہیئے مے مدارات بھر ذرا دیکھ لو میرے دل کی طرف یہ چھل بل ودیعت نہیں رات ...

    مزید پڑھیے

    چاروں اور اب پھول ہی پھول ہیں کیا گنتے ہو داغوں کو

    چاروں اور اب پھول ہی پھول ہیں کیا گنتے ہو داغوں کو ہو توفیق تو دل سے لگاؤ ان نو رستہ باغوں کو جلتے صحرا کی موجوں پر گرتے پڑتے رہرو ہیں چشمۂ آزادی کے جو اب تک ڈھونڈ رہے ہیں سراغوں کو باد حوادث کے شہ پر خود ان کو راہ دکھاتے ہیں وقت کے دھارے پر چھوڑا ہے ہم نے ایسے چراغوں کو کنج قفس ...

    مزید پڑھیے

    رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے

    رات کتنی بوجھل ہے کس قدر اندھیرا ہے دل گواہی دیتا ہے پاس ہی سویرا ہے ایک شہ پہ بچ جائے شہ پہ شہ چلی آئے موت کے کھلاڑی کو زندگی نے گھیرا ہے ناصحوں کا احساں ہے آپ مجھ کو سمجھاتے جس گلی میں چھوڑ آئے اس گلی کا پھیرا ہے کائنات کے دل میں رقص صد بہاراں بھی کائنات کے دل میں یار کا بھی ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئی ہے پھر پیرہن گلابی ہو

    بہار آئی ہے پھر پیرہن گلابی ہو وہ چاند آئے سر انجمن گلابی ہو سیاہ رات سی چھائی وہ زلف چہرے پر جبین ناز گلابی بدن گلابی ہو کھلیں جو بند قبا رات جگمگا اٹھے مہکتی سیج شکن در شکن گلابی ہو ہوا کی لرزشیں دہکاتیں عارض و لب کو حیا کی موج سے سارا بدن گلابی ہو وہ ہونٹ چپ ہوں تو آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

تمام