Premchand

پریم چند

پریم چند کی رباعی

    زیور کا ڈبہ

    بی۔ اے پاس کرنے کے بعد چندر پرکاش کو ایک ٹیوشن کرنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ ان کی ماں پہلے ہی مر چکی تھی۔ اسی سال والد بھی چل بسے۔ اور پرکاش زندگی کے جو شیریں خواب دیکھا کرتا تھا، وہ مٹی میں مل گئے۔ والد اعلٰی عہدے پر تھے۔ ان کی وساطت سے چندر پرکاش کوئی اچھی جگہ ملنے کی پوری امید تھی، ...

    مزید پڑھیے

    لاٹری

    جلدی سے مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔ ان دنوں جب فرنچ لاٹری کے ٹکٹ آئے تو میرے عزیز دوست بکرم سنگھ کے والد، چچا، بھائی، ماں سبھی نے ایک ایک ٹکٹ خریدلیا۔ کون جانے کس کی تقدیر زورکرے، روپے رہیں گے تو گھرہی میں، کسی کام کے نام آئیں۔ مجھے بھی اپنی تقدیر آزمانے کی سوجھی، ...

    مزید پڑھیے

    قربانی

    انسان کی حیثیت کا سب سے زیادہ اثر غالباً اس کے نام پر پڑتا ہے، منگرو ٹھاکر جب سے کانسٹبل ہوگئے ہیں،ان کا نام منگل سنگھ ہوگیا ہے۔ اب انھیں کوئی منگرو کہنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ کلو اہیر نے جب سے تھانہ دار صاحب سے دوستی کی ہے اور گاؤں کا مکھیا ہوگیا ہے۔ اس کا نام کالکا دین ہوگیا ...

    مزید پڑھیے

    بڑے گھر کی بیٹی

    (۱) بینی مادھو سنگھ موضع گوری پور کے زمیندار نمبر دار تھے۔ ان کے بزرگ کسی زمانے میں بڑے صاحب ثروت تھے۔ پختہ تالاب اور مندر انھیں کی یاد گار تھی۔ کہتے ہیں اس دروازے پر پہلے ہاتھی جھومتا تھا۔ اس ہاتھی کا موجودہ نعم البدل ایک بوڑھی بھینس تھی جس کے بدن پر گوشت تو نہ تھا مگر شاید دودھ ...

    مزید پڑھیے

    نجات

    (۱) دکھی چمار دروازے پر جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور اس کی بیوی جھریا گھر کو لیپ رہی تھی۔ دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارن نے کہا، ’’تو جا کر پنڈت بابا سے کہہ آؤ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں۔‘‘ دکھی، ’’ہاں جاتا ہوں، لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں گے کس چیز پر؟‘‘ جھریا، ...

    مزید پڑھیے

    جگنو کی چمک

    شیرِ پنجاب کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں اور اراکینِ سلطنت باہمی نفاق و عناد کے ہاتھوں مرمٹے تھے۔رنجیت سنگھ کی بنائی ہوئی شاندار مگرکھوکھلی عمارت پامال ہوگئی تھی۔کنور دلیپ سنگھ انگلستان میں تھے اور رانی چندر کنور چنار کے قلعہ میں۔ چندر کنورنے گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے کی بہت ...

    مزید پڑھیے

    نئی بیوی

    ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے۔ اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے ۔اور یہ سو سال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔ جب ...

    مزید پڑھیے

    شطرنج کی بازی

    (۱) نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے۔کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی ومستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں، شعر وسخن میں، طرز ...

    مزید پڑھیے

    طلوع محبت

    بھوندو پسینہ میں شرابور لکڑیوں کا ایک گٹھا سر پر لیے آیا اور اسے پٹک کر بنٹی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ گویا زبانِ حال سے پوچھ رہا تھا، ’’کیا ابھی تک تیرا مزاج درست نہیں ہوا؟‘‘ شام ہوگئی تھی پھر بھی لو چلتی تھی اور آسمان پر گردو غبار چھایا ہوا تھا۔ ساری قدرت دق کے مریض کی طرح نیم ...

    مزید پڑھیے

    راہ نجات

    سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر، اور طبیب کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے مریضوں پر جوناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔ تین بیگھے زمین تھی۔ اس کے چھ سو تو آپ ہی مل جائیں گے، ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5