نظم
خزانوں کو تم ڈھونڈنے پر مصر ہو ٹپکتا ہے خوں ناخنوں سے اور آنکھوں سے کھوئی ہوئی نیند کی تلخ سرخی یہ کھیتوں کی جیتی جڑیں کاٹتے پھاوڑے اور کدالیں میں خود موت کے ہاتھ جس کے تمسخر سے تم بے خبر ہو ہتھیلی پر عمر اور دل کی لکیروں میں اٹکے یہ مدھم سے ذرے کہ جن میں ابھی تک تمہارے اب وجد کی ...