Kaif Azimabadi

کیف عظیم آبادی

  • 1937

کیف عظیم آبادی کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں

    عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں شب کی آغوش میں سویرے ہیں میکدے سے وفا کی منزل تک ہم فقیروں کے ہیرے پھیرے ہیں مجھ کو مت دیکھ یوں حقارت سے میں نے رخ زندگی کے پھیرے ہیں ان کی زلفوں کی نرم چھاؤں میں زندگی کے حسیں سویرے ہیں میں ہوں معمار‌ زندگی اے کیفؔ دونوں عالم کے حسن میرے ہیں

    مزید پڑھیے

    نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے

    نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے میں جاگتا ہوں نگاہوں میں تیرے خواب لیے ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لیے میں بھول سکتا نہیں حسرت نظر اس کی وہ ایک شخص جو گزرا ہے اضطراب لیے اداس رات کی تاریکیوں نے چھیڑا ہے اب آ بھی جاؤ نگاہوں میں ماہتاب ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی قید سے اک روز گزر جاؤ گے

    جسم کی قید سے اک روز گزر جاؤ گے خشک پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرو تشنگی لب پہ سجائے ہوے مر جاؤ گے وقت اس طرح بدل دے گا تمہارے خد و خال اپنی تصویر جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے

    مزید پڑھیے

    تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے

    تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے ورق در ورق داستاں چھوڑ آئے ہر اک اجنبی سے پتہ پوچھتے ہیں تجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے وہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں جو احساس سود و زیاں چھوڑ آئے نکل آئے تنہا تری رہگزر پر بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے

    مزید پڑھیے

    پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ

    پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ یاد کا سورج ذہن میں چمکا پلکوں پر لہرائی دھوپ گاؤں کی دھرتی بانجھ ہوئی ہے پنگھٹ سونا سونا ہے پیپل کے پتوں میں چھپ کر ڈھونڈھتی ہے تنہائی دھوپ کوئی کرن بھی کام نہ آئی جیون کے اندھیارے میں میرے گھر کے باہر لیکن لیتی رہی انگڑائی دھوپ ہم ...

    مزید پڑھیے