صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو اور قاتل کا نیا نام مسیحا رکھ دو اب تو رسوائی کی حد میں ہے میری تشنہ لبی اب تو ہونٹھوں پہ دہکتا ہوا شعلہ رکھ دو کتنی تاریک ہے شب میرے مکاں کی یاروں ان منڈیروں پہ کوئی چاند سا چہرہ رکھ دو اب کی بارش میں مرا نام چمک جائے گا لاکھ تم ریت کی تہہ میں ...