جاں بہ لب تشنہ دہن جاتے رہے
جاں بہ لب تشنہ دہن جاتے رہے ساقیان بزم جم آتے رہے اک غم دشمن ہی دنیا میں نہ تھا اور بھی غم تھے جو تڑپاتے رہے درد دل بڑھتا گیا ہے جس قدر چارہ جوئی دوست فرماتے رہے ذوق آزادی میں جو تھے جاں بہ لب ایسے قیدی جان سے جاتے رہے
جاں بہ لب تشنہ دہن جاتے رہے ساقیان بزم جم آتے رہے اک غم دشمن ہی دنیا میں نہ تھا اور بھی غم تھے جو تڑپاتے رہے درد دل بڑھتا گیا ہے جس قدر چارہ جوئی دوست فرماتے رہے ذوق آزادی میں جو تھے جاں بہ لب ایسے قیدی جان سے جاتے رہے
کچھ ایسے حوصلے ہیں زندگی کے مزے آنے لگے ہیں جاں کنی کے کوئی بھی مسئلہ سلجھا نہیں ہے کچھ ایسے ہیں مسائل زندگی کے پرانی اینٹ ہر اک گر رہی ہے ہر اک گھر ہے بہاؤ میں ندی کے وضع داران نفرت اٹھ رہے ہیں نئے امکان ہیں اب دوستی کے ہماری سخت جانی کام آئی ہوا دشمن ہے در پئے دوستی کے
کوئی آج وجہ جنوں چاہتا ہوں تمہیں بھول کر میں سکوں چاہتا ہوں زمانہ کی حالت سے واقف ہوں پھر بھی نہ جانے کہ میں تم کو کیوں چاہتا ہوں تمہاری خوشی پر تمہیں چھوڑ کر اب تمہاری خوشی میں سکوں چاہتا ہوں خفا تم سے ہو کر خفا تم کو کر کے مذاق ہنر کچھ فزوں چاہتا ہوں ورائے محبت بھی اک زندگی ...
چاند پر ہے مجھے تیرا ہی گماں آج کی رات سوجھتا ہی نہیں کچھ سود و زیاں آج کی رات درد انسان میں انسان مٹا جاتا ہے اک نئے عہد کا ملتا ہے نشاں آج کی رات جامۂ ہستی انساں ہے برنگ ماتم اٹھ رہا ہے شمع سوزاں سے دھواں آج کی رات اک نئے موڑ پہ ہے درد محبت اپنا داروئے درد ہے خود درد جہاں آج کی ...