اسحاق وردگ کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    میں زمیں ٹھہرا تو اس کو آسماں ہونا ہی تھا

    میں زمیں ٹھہرا تو اس کو آسماں ہونا ہی تھا آسماں ہو کر اسے نا مہرباں ہونا ہی تھا پیاس کی تحریر سے تو یہ عیاں ہونا ہی تھا بے نشاں باطل تو حق کو جاوداں ہونا ہی تھا روح کی تجسیم سے ممکن ہوئی ہے زندگی لا مکاں کے واسطے بھی اک مکاں ہونا ہی تھا وہ گنہ کی سرزمیں پر جنتوں کا خواب تھا اس ...

    مزید پڑھیے

    خواب نے رکھ لیا فسانے میں

    خواب نے رکھ لیا فسانے میں تم نے تاخیر کی جگانے میں اس زمیں کو فلک بنانے میں میں بھی شامل تھا اک زمانے میں تیرے کردار کو اٹھانے میں مجھ کو مرنا پڑا فسانے میں کام کرتے ہیں روز و شب صاحب ہم محبت کے کارخانے میں بام و در دشمنوں کے ساتھی تھے مجھ کو دیوار سے لگانے میں عشق میں تھوڑی ...

    مزید پڑھیے

    جب خسارے ہی کا سرمایہ ہوں میں

    جب خسارے ہی کا سرمایہ ہوں میں پھر زمیں پر کس لیے آیا ہوں میں ٹوٹے کرداروں کا ملبہ جوڑ کر اک نیا قصہ بنا لایا ہوں میں خواب تک تو ٹھیک تھا لیکن میاں جاگنے کے بعد گھبرایا ہوں میں جس کی بنیادوں میں شب کا حسن ہے ایسی کالی دھوپ کا سایہ ہوں میں اپنی ہی مرضی سے واپس جانے دے دیکھ تیرے ...

    مزید پڑھیے

    نہیں جاتی اگر یہ آسماں تک

    نہیں جاتی اگر یہ آسماں تک تو پھر اس چیخ کی حد ہے کہاں تک چلو پانی سے وہ شعلہ نکالیں اٹھائے جو زمیں کو آسماں تک اب اگلے موڑ پر پاتال ہوگا یقیں سے آ گیا ہوں میں گماں تک زمانے کو سمجھ پایا نہیں ہوں میں سمجھاتا رہوں خود کو کہاں تک عجب اک کھیل کھیلا جا رہا ہے نہ تھا جس کا ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    میں خالی گھر میں بھی تنہا نہیں تھا

    میں خالی گھر میں بھی تنہا نہیں تھا کہ جب تک آئنہ ٹوٹا نہیں تھا سر آئینہ وہ چہرہ نہیں تھا مگر یہ بات میں سمجھا نہیں تھا جہاں سیراب ہوتی تھی مری روح وہ صحرا تھا کوئی دریا نہیں تھا مجھے اس موڑ پہ مارا گیا ہے کہانی میں جہاں مرنا نہیں تھا مری آنکھوں نے وہ آنسو بھی دیکھا مری قسمت ...

    مزید پڑھیے

تمام