آسٹریا میں مسلمانوں پر مظالم

ایک سال پہلے آسٹریا میں مسلم کمیونٹی  کو حکومت نے نام نہاد "سیاسی اسلام" سے لڑنے کی آڑ میں نشانہ بنایا  تھا، -  جسے اکثر "دہشت گردی" سے  منسوب کیا جاتا ہے۔

9 نومبر 2020 کو ہماری مسلم کمیونٹی کے اہم کارکنان پر آسٹریا کی ریاست کی طرف سے "دہشت گرد" ہونے کے بے بنیاد الزام کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ آپریشن لکسر Luxer کا حصہ تھا، جس میں پولیس   نے امن کے حالات میں در اندازی مار کر مسلمان کارکنان کو حراساں  اور گرفتار کیا۔

ان حراساں  کرنے والے  چھاپوں کے دوران، ایک دن صبح پانچ بجے، پولیس نے 70 گھروں پر چھاپہ مارا، مسلمان خاندانوں  کو حراساں کیا، ان کا تمام سامان  قبضے میں لے لیا ،بشمول ان کے موبائل اور نقدی کے اور انہیں بالکل نہتا کر دیا۔ انہوں نے ہمارے اماموں، دوستوں، پروفیسروں اور یہاں تک کہ خیراتی  اداروں تک کو دہشت زدہ کیا۔

اب ایک سال گزرنے کے بعدبھی، پولیس کے پرتشدد چھاپوں سے متاثر ہونے والے درجن بھر لوگوں میں سے کسی ایک پر بھی کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا۔  اس ہفتے، جن اماموں کو نشانہ بنایا گیا تھا ان میں سے ایک کے خلاف دہشت گردی کے الزامات تک کو خارج کر دیا گیا ہے۔  یہ سب عوامل ہمیں کیا نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟

حکومت کی زیرقیادت اس کارروائی  میں مسلم کمیونٹی   کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور یہ  کاروائی  متنازع حرکات سے بھری ہوئی تھی۔   اس سب کاروائی کو حالیہ  مقدمات میں غیر قانونی اور سیاسی اسٹنٹ قرار دیا گیا ہے۔ یہ کاروائی حکومت نے اپنی نا کامیوں اور نا  اہلیوں کو چھپانے کے لیے  کی۔   ان نااہلیوں میں 2 نومبر 2020 کو ویانا میں حملہ شامل ہے جس میں چار افراد ہلاک ہوئے، حالانکہ ریاست اسے روک سکتی تھی۔

اس پر، حکومت نے نہ صرف بے بنیاد در اندازی مارے بلکہ نشانہ بننے والوں سے لمبی پوچھ گچھ کی گئی۔ گو کہ  یہ کاروائی بطور انسداد دہشت گردی ایک  اقدام تھی لیکن اس کے دوران ، متاثرین سے سوالات پوچھے گئے جیسے کہ کیا ان کی بیویاں حجاب پہنتی ہیں، وہ لفظ "اسلامو فوبیا" کے بارے میں کیا سوچتی ہیں اور کیا ان کے خیال میں آسٹریا میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

سوالات  ظاہر کرتے ہیں کہ  آسٹریا میں ایمان، اسلام اور "دہشت گردی" کے درمیان لکیریں کس طرح  دھندلائی  گئی ہیں۔ آخر ایسے ذاتی سوالات کا نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جمہوری معاشرے میں  کوئی معنی رکھتے ہیں؟

شاید آپریشن لکسر کے بارے میں جو چیز سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گی وہ یہ ہے کہ اس نے ان مسلم بچوں پر انمٹ  نقوش چھوڑے  ہیں جو  اس دوران متاثر ہوئے۔ ان میں سے  بہت سوں  کا تو آسٹریا کی پولیس کے ساتھ پہلا تجربہ تھا جو  بھاری ہتھیاروں سے لیس  انہیں نیند سے  زبردستی بیدار  کر رہی تھی اور ان پر بندوق تانے، اس شخص کو پکار رہی تھی، جو انہیں درکار تھا۔ 

آپریشن Luxor   پر اپنی رپورٹ تیار کرتے ہوئے  میں نے آپریشن سے متاثر ہونے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے انٹرویوز کیے ۔ یہ پہلا موقع تھا، جس نے دبے ہوئے، بے آواز متاثرین کو آواز اٹھانے کا موقع دیا۔

متاثرین کے تجربات اندوہناک تھے۔ آپریشن Luxor کے چھے ماہ بعد بھی لوگ اس آپریشن  میں ہونے والی کاروائیوں  پر جذباتی تھے اور اس پر بات کرنے سے خوف محسوس کر رہے تھے۔ 

ایک نوعمر لڑکی، فاطمہ نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی ماں کو پولیس سے التجا کرتے ہوئے سنا ہے کہ وہ اسے اپنے بچے کو لینے کے لیے واپس سونے کے کمرے میں جانے دیں۔ گو کہ فاطمہ یہ نہیں دیکھ سکی تھی کہ پولیس اس کی ماں کی طرف بندوق  تانے کھڑی ہے  اور ٹرگر پر انگلی رکھے ہوئے ہے۔ ۔  اس کے باوجود، فاطمہ در اندازی سے اگلی رات اپنے کمرے میں نہیں آ سکی اور تمام رات اسے در اندازی کا خوف ستاتا رہا۔ وہ در اندازی کے خوف سے گھنٹوں جاگتی رہی۔

اس در اندازی نے اس کے ذہن پر ایسا اثر ڈالا کہ جب بھی وہ پولیس کو دیکھتی ہے تو اسے گھبراہٹ کا احساس  ہونے لگتا ہے۔ جب بھی کوئی پولیس والا اس کے پاس سڑک پر یا اس کے گھر کے قریب آتا ہے تو وہ رونے لگتی ہے اور سانس نہیں لے پاتی۔

ان کاروائیوں سے  عائشہ نامی ایک ماں بھی بہت متاثر ہوئی۔ اس نے اپنے شوہر اور بچوں کے  ہمراہ چھاپوں کا  سامنا کیا۔ اس کے شوہر نے  بتایا کہ کس طرح افسران  نے ان کے بچوں کو ان کی نسل  ہونے پر طنز کیا۔ عائشہ کے 13 سالہ بیٹے کو  ایک افسر نے گردن سے پکڑ کر زمین  سے لگایا اور ، پھر اس کی 12 سالہ بھانجی سے اس کے والدین کی اجازت کے بغیر پوچھ گچھ کی ۔

در اندازی کے بعد، عائشہ کے گھر کو میڈیا نے "ایک پرانا دہشت گرد  ٹھکانہ " قرار دیا تھا اس کے باوجود کہ عائشہ پر کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔   لوگوں نے ان کے گھر اور ان کی تصاویر سڑکوں اور سپر مارکٹس میں پھیلا دی تھیں۔

گھر والوں کو چھاپوں سے شدید  تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آپریشن لکسر سے متاثر ہونے والے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، عائشہ کے بچے بھی زیر علاج ہیں۔ آج بھی وہ بہت حساس ہوتے ہیں جب اجنبی ان کے گھر کے سامنے گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔

در اندازی کے بعد سے، متاثرہ افراد نے مجھے بتایا ہے کہ انہیں پولیس یا ریاست پر کوئی بھروسہ یا  اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے آسٹریا کے تاریک پہلو کا تجربہ کیا ہے، اور وہ اسے آمریت کی یاد تازہ کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آپریشن لکسر سے متاثر ہونے والے خاندان  ملک چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کو اب ایکشن لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ رہنے والے پر امن لوگ کیسے ریاستی تعصب کا شکار ہو رہے ہیں۔