اور زندگی مسکرانے لگی
اور اس کی نظریں مس نگار پر جم کر رہ گئیں۔
’’ساجد! ارے اُو ساجد!! ذرا پروین سے کہنا سارے مہمان آگئے۔ لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہیں، فون پر دریافت کرے آخر کیا بات ہے ؟‘‘
پرنسپل ریاض نے عینک صاف کرتے ہوئے چپراسی سے کہا اور پھر نئے مہمانوں کے استقبال کو آگے بڑھ گئے۔
آج گورنمنٹ کالج کا احاطہ خوش پوش مہمانوں سے جگمگارہا تھا۔ پرنسپل ریاض کی اکلوتی لڑکی پروین کی پندرہویں سالگرہ کی تقریب میں کوٹھی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ جیپ، کار اور موٹرسائیکلیں ایک تانتا بندھا ہوا تھا۔ حکام، رؤسا اور شہر کے معززین تقریب کو چار چاند لگارہے تھے۔
زنان خانہ میں خواتین کے استقبال کو نوشابہ، شاہینہ، شیریں، نسرین اور کملا اور پروین کی دوسری سہیلیاں پیش پیش تھیں۔ لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہ تھا۔ ڈاکٹر جو پروین کو بہت چاہتا تھا۔ اس تقریب میں اتنی دیر باہر رہے، تعجب خیز بات تھی۔
نسرین نے گرلس اسکول سے آئی ہوئی استانیوں کو اپنے ہاتھوں سے شربت کے گلاس پیش کیے۔ جشن سالگرہ کی تقریب میں چند ہی منٹ باقی رہ گئے تھے کہ ڈاکٹر پرویز کی کار احاطہ میں داخل ہوئی اور پرویز مُسکراہٹ کے پھول بکھیرتا ہوا مہمانوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنی تاخیر کی معذرت چاہتا رہا۔
تقریب شروع ہوگئی اور جب گانے کا پروگرام آیا تو پروین نے اعلان کیا کہ اِس کے اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس نگار طالبات کے اصرار پر غزل کے چند اشعار سنانے کو تیار ہوگئی ہیں۔
تالیوں کی گونج میں مس نگار نے پیانو پر ضرب لگائی
ڈاکٹر کے لب پھڑپھڑائے۔
’’مس نگار ! ہیڈ مسٹریس !!‘‘
اور اس کی نظریں مس نگار پر جم کر رہ گئیں۔
یادوں کے دیے جگمگا اُٹھے۔ ذہن کے پردے پر ماضی کی حسین تصویریں اُجاگر ہونے لگیں۔ ماضی نے پکارا اور حال نے اُسے آج سے سات سال پیچھے دھکیل دیا۔
’’مسٹر پرویز! کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟‘‘
سائنس کالج کے دار التجربہ میں پہلی بار مِس نگار نے پرویز کو مخاطب کیا تھا۔ اس کی مخروطی اُنگلیوں کے درمیان ٹِسٹ ٹیوب استفہامیہ انداز میں مرتعش تھی۔ پرویز کے وہم وخیال میں بھی نہ تھا کہ نگار جیسی خود دار اور غیور لڑکی کو اِس کی مدد کی ضرورت پڑسکتی ہے!
’’کہیے ؟ کیا بات ہے ؟‘‘
پرویز نے اپنی پلکوں کی نوک سے ملکوتی حُسن کو کُریدا۔
’’سالٹ ٹِسٹ کرنا ہے اور یہ مجھ سے ہو نہیں رہا ہے۔ بات ہی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔‘‘
اور وہ مُسکرا پڑی۔
کیوپڈ نے اپنا ترکش خالی کردیا۔ وینس اور قلو پطرہ شرما گئیں۔ ہیر رانجھا کی یاد تازہ ہوگئی۔
دن بیتتے رہے، وقت کا پہیہ چکّر لگاتا رہا۔
پرویز نگار سے قریب ہوتا گیا۔ خیالات کے شیش محل تعمیر ہوتے رہے۔ آئے دن کی ملاقاتیں محبت کا رُوپ دھارتی گئیں، محبت کا جذبہ بڑھتا گیا۔ نگار کی مستی بھری آنکھوں نے پیمانہ کا کام کیا اور وہ شرابِ محبت پیتا رہا۔ پیتا رہا اور بہکتا رہا، مخمور و بیخود ہوتا رہا۔ مستقبل سے بے نیاز، انجام سے بے خبر!
کتنے حسین لمحات آئے اور بیت گئے۔ پرویز نے بارہا اظہارِ محبت کرنا چاہا۔ لیکن حرفِ مُدّعا زبان پر نہ آسکا۔ حُسن وعشق کے درمیان جھجک کا پردہ حائل رہا۔ آس اور یاس میں آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ اگر نگار نے انکار کردیا تو؟ تو پھر وہ کہیں کا نہ رہے گا، وہ لُٹ جائے گا۔ اُس کی دنیا تباہ وبرباد ہوجائے گی!
اور وہ اس سے آگے نہ سوچ پاتا۔ انسان ایک خاص حد تک جذبۂ محبت برداشت کرسکتا ہے، اُس سے آگے نہیں۔ شعلۂ محبت کبھی نہ کبھی ضرور بھڑک اُٹھتا ہے۔ پرویز کے ضبط کی ڈور بھی ڈھیلی پڑگئی۔
سالانہ امتحان کے پرچہ کا آخری دن تھا۔ اُس کے بعد طویل مدت کے لیے کالج بند ہورہا تھا۔ امتحان گاہ سے نکلتے ہوئے پرویز نے نگار کو سب کچھ بتادیا۔ محبت کی بھیک مانگی۔ اپنی زندگی کے لیے اُس کی محبت کا قرض مانگا۔ لیکن نگار نے کچھ جواب نہ دیا۔ سُنتی رہی اور چلتی رہی چلتی رہی اور سُنتی رہی۔ آخر اُس سے نہ رہا گیا اور اُس نے صاف کہہ دیا۔
’’پرویز! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ تم نے مجھے غلط سمجھا۔ میں تمہیں پسند کرتی ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم سے محبت بھی کرتی ہوں۔ پرویز!تم انجانے میں بہت دُور نکل آئے ہو۔ لوٹ جاؤ پیچھے کی طرف۔ سمجھ لینا ہم ملے ہی نہیں۔ میں مجبور ہوں پرویز! میں نے اپنا جیون ساتھی چُن لیا ہے۔ مجھے اُن سے محبت ہے، عشق ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں سکتے پرویز ! اشرف کو تم جانتے ہوگے۔ وہی اشرف جس کا باپ جج ہے، جس کی اپنی شاندار کوٹھی ہے۔ چمکتی ہوئی کار اور زندگی کی ہر حسین شے موجود ہے۔ لیکن پرویز! مجھے اشرف کی کوئی چیز نہیں چاہیے۔ مجھے اشرف چاہیے، صرف اشرف!‘‘
’’پرویز! میں نے تمہیں اپنا بہترین دوست جانا ہے اور بس میری زندگی اشرف کے لیے ہے پرویز! تم اُسے خدا را مجھ سے مت چھینو۔ اشرف کو معلوم ہوا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میں کہیں کی نہ رہوں گی۔ لِلّٰہتم ہماری محبت سے نہ کھیلو۔ ایک اچھے اور پُر خلوص دوست کا فرض ادا کرو پرویز اور میری زندگی برباد نہ کرو۔‘‘
پرویز کے ذہن کے سارے تار جھنجھنا اُٹھے۔
رقص وسُرود کی محفل شباب پر تھی۔ ہر شخص مست وبیخود تھا۔ لیکن ڈاکٹر کا ذہن ماضی کے کھنڈر میں بھٹکتے بھٹکتے تھک چُکا تھا۔ اُس نے انگڑائی لی، سگریٹ کا کش لگایا اور محفل پر طائرانہ نظر ڈالی۔ پروین، نوشابہ، شاہینہ اور دوسری لڑکیوں کے قریب مس نگار بیٹھی محفل سے دلچسپی لے رہی تھیں۔ لیکن اُ س نے محسوس کیا نگار کے چہرے پر پہلی سی تازگی وشگفتگی نہیں ہے زندگی کی رمق سے خالی آنکھیں۔ نگار کو دیکھ کر اُس کا ماضی جاگ گیا۔ اُس کی محبت کی سوکھی ٹہنیوں میں کونپلیں پھوٹ پڑیں۔ اِس خوف سے ڈاکٹر آہستہ سے اُٹھا اور اپنے کمرے میں جاکر آرام کُرسی پر نیم دراز ہوگیا۔
تخیلات کی دیوی نے اُس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ وہ پھر ماضی کے دُھندلکوں میں گُم ہوگیا۔ نگار کے انکارِ محبت پر وہ کچھ نہ بول سکا تھا۔ جاتے جاتے اُس نے کہا تھا:
’’کوئی ضرورت آ پڑے تو مجھے یاد کرلینا نگار!! اچھے دوست کی حیثیت سے تمہارے لیے میری زندگی کا دروازہ ہمیشہ کھُلا رہے گا!‘‘
اور وہ تیزی سے چلا گیا۔
اُس دن سے اُس کا دل اُچاٹ رہنے لگا۔ دُنیا کی کوئی چیز اُسے اچھی نہ معلوم ہوتی۔ اُسے پہلی بار دولت کی ضرورت کا احساس ہوا۔ ایک حسین عورت کے لیے دولت، عزت، موٹر اور آسائش کے تمام لوازمات کا ہونا لازمی ہے۔
’سچ مچ محبت ایک دھوکا ہے، فریب ہے ؛ پرویز سوچنے لگا ’نہیں‘ نہیں!! ایسی بات نہیں ہے۔ محبت آزاد ہے اور زندگی سے زیادہ عزیز وپُر مسرت ہے ؛
اشرف جس نے ہمیشہ دوسروں کی محبت کا مذاق اُڑایا، خود کیسے محبت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اُس نے اکثر محبت کو حسین فریب، حسین دھوکا کہا۔ ہَوس پرستی کا دوسرا نام محبت رکھا۔
پرویز کو دولت کی ضرورت تھی جس کے سہارے وہ نگار جیسی لڑکی پاسکے۔ سماجی عزت درکار تھی، جس کے پیچھے حوّا کی مغرور بیٹیاں سایے کی طرح لگی رہیں۔
پرویز نے جان توڑ محنت کی۔ پڑھتا رہا، محنت کرتا رہا اور بالآخر یونیورسٹی میں اوّل آیا۔ ایم.بی.بی. ایس کا امتحان پاس کیا اور اب دوسال سے صدر ہسپتال میں اونچے درجہ پر فائز تھا۔
آج اُس کے پاس دولت ہے، عزت ہے، زندگی کی ہرمسرت موجود ہے۔ لیکن وہ دل جس پر نگار کا نقشہ جم چُکا تھا، آج تک بے نور ہے!
’’چھوٹے ابّا! آپ یہاں ہیں۔ کیوں؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
پرویز کی آنکھیں کھُل گئیں۔ سامنے پروین کھڑی دریافت کررہی تھی۔
’’ہاں بیٹا! طبیعت کچھ سُست ہوگئی ہے۔ آج ہسپتال میں ایک بہت ہی خطرناک کیس آگیا تھا۔ تھک گیا ہوں۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ بتاؤ کہ کیا سب مہمان جاچکے؟‘‘
’’کچھ تو چلے گئے، باقی لوگ اب جارہے ہیں۔ ذرا اپنی گاڑی دیجیے کہ اُستانیوں کو اسکول پہنچادوں۔‘‘
’’تو کیا سب ہی چلے جائیں گے؟‘‘ پرویز گھبرایا ہُوا بول پڑا ’’ ارے ہاں! میں یہ دریافت کرنا ہی بھول گیا کہ مس نِگار تمہارے اسکول میں کب سے ہیں؟ گاتی تو بہت اچھا ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے میں نے انہیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’دیکھا ہوگا۔ یہ ہمارے اسکول میں امسال آئی ہیں۔ بہت مخلص اور ملنسار ہیں۔ کملا کہہ رہی تھی کسی اشرف نام کے ’’شریف‘‘ انسان نے اِنھیں دھوکا دیا ہے، اِن کی زندگی سے مذاق کیا ہے۔ ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کرکے اُس دغاباز نے کہیں اور شادی رچالی اور جب اِنھیں یہ خبر ملی تو کچھ نہ کر پائیں۔ تین سال ہوگئے کہ اشرف سے ملاقات بھی نہ ہوسکی ہے۔‘‘
’’بس کرو، پروین!‘‘پرویز سے آگے نہ سُنا گیا اور وہ مغموم نِڈھال قدم اٹھاتا ہوا باہر آگیا۔ راہ داری میں نِگار سے ملاقات ہوگئی۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مبہوت کھڑے رہے۔ نِگار کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو!
پھر وہ یکایک بول اُٹھی۔
’’پرویز! تم یہاں؟‘‘
’’ہاں نِگار! میں یہیں ہوں اور زندہ ہوں۔ پروین میری بھتیجی ہے کیوں یہ بنگلہ تمہیں اچھا نہیں معلوم ہوتا کیا؟ تم بھاگنے کو کیوں بیتاب ہورہی ہو؟ کوئی کِسی کو زبردستی نہیں روک سکتا نِگار !‘‘
ڈاکٹر نے نظریں نیچی کیے نگار سے کہا۔
’’مجھے معاف کردو پرویز ! میں نے تمہاری محبت کو ٹُھکرایا، تمہارے پیار کی قدر نہیں کی۔ میں نے اشرف پر بھروسہ کیا۔ لیکن ‘‘
’’بس بس رہنے دو۔مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ پروین نے ساری باتیں بتادی ہیں۔ اشرف کی فطرت سے میں پہلے ہی واقف تھا۔ لیکن تمہارے جذبات کو ٹھیس لگنے کے خیال نے اظہارِ حقیقت سے معذور رکھا تم محبت میں اندھی ہورہی تھی۔ میری باتوں پر تمہیں یقین نہ ہوتا اور تمہارا دل اُسے قبول نہ کرتا۔ اس لیے میں نے خاموشی اختیار کی اور ارے تم رو رہی ہو، تم رو رہی ہو نگار !! ایسا نہ کرو، خدا کے لیے نِگار ایسا نہ کرو، ورنہ نگار میری زندگی کا دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا! میں تمہیں آج بھی اُسی طرح چاہتا ہوں، جتنا پہلے چاہتا تھا۔ میری زندگی تمہارے بغیر ویران اور تاریک ہے نگار!! تم چاہو تو اِسے منّور کرسکتی ہو۔ زندگی کی سُوکھی ٹہنیوں میں برگ وبار آسکتے ہیں اور ‘‘
’’پرویز پرویز !!‘‘
جذبات کی شِدّت سے نگار اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی اور پرویز کے سینے سے لگ گئی۔ پرویز نے اُسے سہارا دیا۔ طُوفان تھم جانے کے بعد دونوں کے لبوں پر مُسکراہٹ کی کلیاں پھول بننے لگیں، حُسن گنگنانے لگا اور زندگی مُسکرانے لگی۔