اشک غم آنکھوں سے کتنے بہہ گئے
اشک غم آنکھوں سے کتنے بہہ گئے
جو نہ کہنا تھا اسے ہم کہہ گئے
چھٹ کے تجھ سے بے سہارے رہ گئے
زندگی کے سب کنارے بہہ گئے
کوئی انساں سا اسیر غم نہیں
آئی جو سر پر ہمارے سہہ گئے
دیکھ کر دنیا کے یہ طور و طریق
کتنے نغمے گھٹ کے دل میں رہ گئے
پہنچا دیوانہ تو منزل پر مگر
این و آں میں ہم الجھ کر رہ گئے
تیرا غم فکر جہاں تنہائیاں
داغ ہم سینے پہ کیا کیا سہہ گئے
ہجر میں بھی وصل کے آئے مزے
یوں تصور میں ہم ان کے بہہ گئے
کس نے پائی تیری نظروں سے پناہ
دل کو اپنے اب بچاتے رہ گئے
اب جوانی کا وہاں جوش و خروش
اے حبیبؔ اب حوصلے سب ڈھ گئے