اصحاب کہف کی تفصیلات: دوسری قسط

جنگ کے بعد سے اس علاقہ کی ازسر نواثری پیمائش کی جارہی ہے اور نئی نئی باتیں روشنی میں آرہی ہیں۔ ازاں جملہ اس علاقہ کے عجیب و غریب غار ہیں جو دور دور تک چلے گئے ہیں۔ اور نہایت وسیع ہیں۔ نیز اپنی نوعیت میں ایسے واقع ہوئے ہیں کہ دن کی روشنی کسی طرح بھی ان کے اندر نہیں پہنچ  سکتی۔ ایک غار ایسا  بھی ملا ہے،کہ جس کے دہانہ کے پاس قدیم عمارتوں کے آثار پائے جاتے ہیں اور بے شمار ستونوں کی کرسیاںشناخت کی گئی ہیں۔ خیال کیا گیا ہے کہ یہ کوئی معبد ہو گا ۔ جو یہاں تعمیر کیا گیا تھا۔

 

اس انکشاف کے بعد قدرتی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ اسی شہر میں پیش آیا تھا۔ اور قرآن نے صاف صاف اس کا نام ”ار قیم“  بتلا دیا ہے۔ اور جب اس نام کا ایک شہر موجود تھا، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ رقیم کے معنی میں غیر ضروری  تکلفات کیے جائیں۔ بغیر کسی بنیاد کے اسے " کتبہ “ پر محمول کیا جائے۔ علاوہ  بر  ایں  دوسرے قرائن بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

 

قرآن نے جس طرح اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ اس واقعہ کی عرب میں شہرت تھی۔ لوگ اس بارے میں بحثیں  کیا کرتے تھے۔اوراسے ایک نہایت ہی عجیب وغریب بات تصور کرتے تھے۔اب یہ ظاہر ہے کہ مشرکین عرب کے وسائل ِمعلومات محدود تھے۔ بہت کم امکان ہے کہ دُور  درازکی باتیں ان کے علم میں آتی ہوں۔ پس یہ  ضروری ہے کہ یہ  قرب وجوار ہی کی کوئی بات ہو اور ان لوگوں کی زبانی سنی جاسکے،  جن سے ہمیشہ عربوں کا ملنا جلنا رہتا ہو۔ایسے لوگ کون ہو سکتے تھے ؟اگر اسے ”پیٹرا‘‘  کا  واقعہ قرار دیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے ۔ اول تو خود یہ مقام عرب سے قریب تھا۔ یعنی عرب کی سرحد سے ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔  ثانیاً  نبطیوں کی وہاں آبادی تھی۔ اور نبطیوں کے تجارتی قافلے برا بر حجاز میں آتے رہتے تھے۔ یقینا ً ، نبطیوں میں اس واقعہ کی شہرت ہو گی اور انہی سے عربوں نے سنا ہو گا۔ خود قریش مکہ کے تجارتی قافلے بھی ہر سال شام جایا کرتے تھے۔اور سفر کا ذریعہ وہی شاہراہ تھی۔ جو رومیوں نے ساحلِ خلیج سے لے کر ساحل  مار  مورا   تک تعمیر کر دی تھی، پیٹر ا  اسی شاہراہ پر واقع تھا۔ بلکہ اس نواح کی سب سے پہلی تجارتی منڈی تھی۔ اس لئے اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہو سکتی ہے، کہ یہ واقعہ ان کے علم میں آ گیا ہو۔ اس سلسلہ میں چند باتیں اور تشریح طلب ہیں۔

جنگ کے بعد اس شاہرہ کا سراغ لگایا گیا تو یہ  پوری طرح نمایاں ہو گئی۔ اب یہ اپنے اصلی خط پر دوبارہ تعمیر کی جارہی ہے۔ اور عقبہ سے عمان تک تعمیر ہو چکی ہے۔ آج کل جہاں عقبہ ہے،  وہاں پہلے ترسیس آباد تھا۔ جہاں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے جہاز ہندوستان جایا کرتے تھے۔ اور بحیرہ   احمر کے تجارتی بیڑے کا مرکز تھا۔

 

جاری ہے

متعلقہ عنوانات