اصحاب کہف کی تفصیلات: پانچویں قسط

گزشتہ سے پیوستہ

یہ بات کہ ایک آدمی پر غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت طاری رہے۔ اور وہ پھر بھی زندہ رہے، طبی تجارب کے مسلمات میں سے ہے۔ اور اس کی مثالیں ہمیشہ تجربے میں آتی رہتی ہیں۔ پس اگر اصحاب کہف پر قدرت الٰہی سے کوئی ایسی حالت طاری ہو گئی ہو جس نے غیر معمولی مدت تک انہیں سلائے رکھا تو یہ کوئی مستعد بات نہیں۔ البتہ قرآن حکیم کی تصریح اس بارے میں ظاہر اور قطعی نہیں ہے اس لیے احتیاط اس میں ہے که حزم ویقین کے ساتھ کچھ نہ کہا جائے۔

 وتحسبهم أيقاظاً  وهم رقود

میں اس صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت تھی۔ یا جو حالت اس غار کی ایک مدت تک رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انقلاب حال کے بعد اصحاب کہف نے غار کی گوشہ نشینی ترک نہیں کی تھی۔ اس میں رہے۔ یہاں تک کہ انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے بعد غار کی حالت ایسی ہو گئی کہ باہر سے کوئی دیکھے تو معلوم ہو کہ زندہ آدمی موجود ہیں۔ دہانے کے قریب ایک کتا دونوں ہاتھ آگے کیے بیٹھا ہے۔ حالا نکہ نہ تو آدمی زندہ  ہیں،  نہ کتا ہی زندہ ہے۔

 

لیکن باہر سے دیکھنے والا انہیں زندہ اور جاگتا کیوں سمجھے ؟ اگر ان کی نعشیں پڑی ہیں تو نعشوں کو کوئی زندہ تصور نہیں کر سکتا۔ اگر  ر قود  سے مقصود سونے کی حالت ہے اور وہ لیٹے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک لیٹا ہوا آدمی دیکھنے والے کو جاگتا ہی دکھائی دے۔

 

مفسرین نے یہ اشکال محسوس کیا۔ لیکن اس کا کوئی حل دریافت نہ کر سکے۔ بعضوں نے کہا وہ اس لئے جاگتے دکھائی دیتے ہیں کہ آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ۔ لیکن اگر ایک بے حس و حرکت نعش پڑی دکھائی دے اور اس کی آنکھیں بھی ہوں تو دیکھنے والا اسے ہو شیار و بیدار کیوں سمجھنے لگا؟ یہی سمجھے گا کہ مر گیا ہے ۔ مگر آنکھیں کھلی رہ گئی ہیں۔ بعضوں نے کہا نقلبهم ذات اليمين وذات الشمال کی وجہ سے وہ بیدار دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ دائیں بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لئے دیکھنے والا خیال کرتا ہے ۔ بیدار ہیں۔ لیکن یہ تو جیہہ پہلے سے بھی زیادہ بے معنی ہے۔ اول تو کروٹ بدلنا بیداری کی دلیل نہیں۔ آدمی گہری سے گہری نیند میں ہو تا ہے۔ اور کروٹ بدلتا ہے۔ ثانیا  ًاگر کروٹ بدلتے ہوں گے تو کچھ وقفے کے بعد بدلتے ہوں گے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہر آن کروٹ بدلتے ہی رہتے ہوں۔ اور جب کبھی کوئی جھانک کر دیکھے انہیں کروٹ بدلتا ہی پائے۔ لطف یہ ہے کہ   نقلبهم ذات اليمين وذات الشمال  کی تفسیر میں یہی مفسر ہمیں بتلاتے ہیں کہ بعضوں کے نزدیک سال میں دودفعہ کروٹ بدلتی ہے ،بعضوں کے نزد یک ایک دفعہ بعض کہتے ہیں تین سال بعد ، بعض کہتے ہیں نو سال بعد ۔ علاوہ بریں قرآن نے یہ بات جس اسلوب و شکل میں بیان کی ہے۔

 

اس پران نکتہ وروں نے غور نہیں کیا۔  

لو اطلعت عليهم لوليت منهم فرارا ولملئت منهم رغبا۔

 یعنی غار کے اندر کا منظر اس درجہ دہشت انگیز ہے کہ اگر تم جھانک کر دیکھو تو خوف کے مارے کانپ اٹھو۔ اور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اس سے معلوم ہوا غار کے اندر اصحاب کہف کے اجسام نے ایسا منظر پیدا کر دیا ہے جو بے حد دہشت انگیز ہے اگر آدمی باہر سے دیکھے تو دیکھنے کے ساتھ ہی اس پر دہشت چھا جائے معاً  الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہو۔ اب اگر اندر کا منظر صرف اتنا ہی تھا کہ چند آدمی لیٹے ہوئے ہیں اور آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے اس درجہ دہشت انگیزی پیدا ہو سکے۔ علاوہ بریں جو آدمی باہر سے جھانکے گا وہ اتنا بار یک بین نہیں ہو سکتا کہ غار کی تاریکی میں لیے ہوئے آدمیوں کی آنکھیں بھی بہ اول نظر دیکھ لے۔ اور وہ بھی اس حالت میں کہ داہنے یا بائیں کروٹ پر لیٹے ہوں۔

 

در اصل یہ سارا معاملہ ہی دوسرا ہے۔ اور جب تک مفسرین کے پیدا کئے ہو ئے تخیل سے بالکل الگ ہو کر تحقیق نہ کی جا ئے ۔اصلیت کا سراغ نہیں مل سکتا۔

 

سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو حالت اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ وہ کس وقت کی ہے ؟ اس وقت کی ہے جب وہ نئے نئے غار میں جاکر مقیم ہوئے تھے؟ یا اس وقت کی جب انکشاف حال کے بعد دوبارہ مختلف ہو گئے؟ مفسرین نے خیال کیا ۔ اس کا تعلق پہلے وقت سے ہے۔ اور یہی بنیادی غلطی ہے ۔ جس نے سارا الجھاؤ پیدا کر دیا ہے۔ دراصل اس کا تعلق بعد کے حالات سے ہے۔ یعنی جب وہ ہمیشہ کیلئے غار میں گوشہ نشین ہو گئے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وفات پاگئے۔ تو غار کے اندرونی منظر کی یہ نوعیت ہوگئی تھی تحسبهم أيقاظاً وهم رقود میں ایقاظ   سے مقصود ان کا زندہ ہونا ہے۔ اور رقود سے مردہ ہونا ۔ نہ کہ بیدار اور خواب۔ چنانچہ عربی میں زندگی اور موت کیلئے یہ تعبیر عام معلوم ہوتی ہے۔ پھر یہ بات سامنے لانی چاہیے کہ یہ واقع مسیحی دعوت کی ابتدائی صدیوں کا ہے۔ اور جنہیں پیش آیا تھا۔ وہ عیسائی تھے ۔ صرف اتنی بات پر غور کرنے سے سارا معاملہ حل ہو جا تا ہے۔

مسیحی دعوت کے ابتدائی قرنوں ہی میں زہدوانزدا کی ایک خاص زندگی شروع ہو گئی تھی۔ جس نے آگے چل کر رہبانیت کی مختلف شکلیں اختیار کر لیں۔ اس زندگی کی ایک نمایاں خصوصیات یہ تھی کہ لوگ ترک علایق کے بعد کسی پہاڑ میں یا کسی غیر آباد گوشہ میں مختلف ہو جاتے تھے۔

متعلقہ عنوانات