عرض جو کچھ میری زبانی ہے

عرض جو کچھ میری زبانی ہے
آپ بیتی نہیں کہانی ہے
جس نے منہ مدرسے کا دیکھ لیا
زندگی میں وہ آنجہانی ہے
راہ مکتب کی بھولنے کے لیے
خاک اک اک گلی کی چھانی ہے
پڑھنے لکھنے میں جی نہیں لگتا
مار کھانے کی یہ نشانی ہے
خاک پڑھیے جو ہو غذا ایسی
بھات کنکر ہے دال پانی ہے
جور استاد ہے نہ مہر پدر
کس قیامت کی یہ گرانی ہے
ہر جمعہ گڈفرائیڈے ہے مرا
رات بھی اس کی کیا سہانی ہے
پار ہوں امتحاں کے دریا سے
ناؤ کاغذ کی یوں چلانی ہے
پھر بھلا ہم کہاں کہاں مسجد
یہ نماز اپنی امتحانی ہے
یہ غزل خوب ہے جلالؔ میاں
کیا سلاست ہے کیا روانی ہے
لکھنوی یہ جلال گرچہ نہیں
کاکوی یہ جلال ثانی ہے