مضمون

ترقی پسند تحریک پر ایک نظر

آزادؔ نے آب حیات میں میرؔ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ایک دفعہ ایک کرم فرما نے ان کے لیے ایک ایسے مکان کا انتظام کیا، جس کے ساتھ ایک بہت اچھا باغ بھی تھا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے جاکر دیکھا تو باغ کی طرف کی کھڑکیاں بند تھیں اور میرؔ فکر سخن میں مصروف۔ انہوں نے کھڑکیاں کھولیں اور ...

مزید پڑھیے

ادب میں قدروں کا مسئلہ

اقبال نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو سماج کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو سماج کی آنکھیں کھلتی ہیں۔‘‘ میں یہ قول ایک کلیے کی طرح نہیں دہرا رہا ہوں، بلکہ صرف اس بات پر زور دیناہے کہ شاعر یا ادیب جن قدروں کی علم ...

مزید پڑھیے

باغ آرزو

آہا ہا ہا ہا! سامنے کیسے پھول کھلے ہوئے ہیں! جوانانِ چمن کیسا خوبصورت زیور پہنے ہیں کہ نظر ادھر جاتے ہی فریفتہ ہو جاتی ہے۔ درختوں کا ہراہرا رنگ آنکھوں میں کھبا جاتا ہے۔ کس قیامت کی بہار ہے! اس نظر فریب منظر نے دل میں کچھ ایسا جوش پیدا کرکے اپنی طرف کھینچا کہ بجھی ہوئی طبیعت میں ...

مزید پڑھیے

مٹیا برج کے حالات

کلکتے سے تین چار میل کی مسافت پر جنوب کی طرف دریائے بھاگیرتی (ہگلی) کے کنارے ’’گارڈن پچ‘‘ کے نام ایک خاموش محلہ ہے اور چونکہ وہاں ایک مٹی کا تودہ تھا، اس لیے عام لوگ اسے مٹیا برج کہتے تھے۔ یہاں کئی عالیشان کوٹھیاں تھیں جن کی زمین دریا کے کنارے کنارے تقریباً ڈھائی میل تک چلی گئی ...

مزید پڑھیے

غالب کا فلسفہ

(لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے نشریہ، 16 فروری 42ء کو غالب کی برسی کے موقع پر) فلسفہ کے نام سے گھبرائیے نہیں۔ فلسفہ موٹے موٹے نامانوس لغات کا ثقیل، مغلق اصطلاحات کا نام نہیں۔ فلسفہ نام ہے خود شناسی کا۔ زینہ ہے خدا شناسی کا۔ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ ہمارے گرد و پیش کیا ہے؟ ہمارے جذبات کیا ہیں؟ ...

مزید پڑھیے

غالب کا ایک فرنگی شاگرد آزاد فرانسیسی

پچھلے نمبر کے شذرات (معارف) میں اردو کے چند فرنگی شاعروں کا جو مختصر تذکرہ آ گیا تھا، ناظرین کرام نے اس سے دلچسپی کا اظہار کیا اور احباب کو یہ داستان خوشگوار اور پر لطف معلوم ہوئی۔ ان حضرات کی ضیافت ذوق کے لئے ایک فرنگی شاعر کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔الگزینڈر ہیدر ...

مزید پڑھیے

اردو کا ایک بدنام شاعر یا گنہگار شریف زادی

لکھنؤ ہے اور واجد علی شاہ ’’جان عالم‘‘ کا لکھنؤ۔ زمانہ یہی انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا۔ آج سے کوئی ستر پچھتر سال قبل۔ ہر لب پر گل کا افسانہ، ہر زبان پر بلبل کا ترانہ، ہر سر میں عشق کا سودا، ہر سینہ میں جوش تمنا، ہر شام میلوں ٹھیلوں کا ہجوم، ہر رات گانے بجانے کی دھوم یہاں رہس ...

مزید پڑھیے

ایک مغربی کی مشرقیت

کوئی دو سال ادھر کا ذکر ہے کہ لندن کی چھپی ہوئی ایک ضخیم و مستند کتاب ہندوستان پہنچی، عنوان Love , Marriage, Jeolousy ( محبت، ازدواج، رقابت) موضوع، عنوان ہی سے ظاہر ہے۔ ضخامت 398 صفحات۔ کتاب کی تالیف میں متعدد ماہرین فن شامل۔ کتاب بیس بابوں میں تقسیم، ہر باب ایک ایک ماہر فن کے قلم سے نکلا ...

مزید پڑھیے

مرزا رسوا کے قصے کچھ ادھر سے کچھ ادھرسے

مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئیجس نے موت کو دعوت ان الفاظ میں ۳۱، ۳۲ سال قبل دی تھی، اس کی شمع حیات واقعتاً اکتوبر۱۹۳۱ء میں گل ہوکر رہی۔ موت کو جب آنا ہوتا ہے جب ہی آکر رہتی ہے۔ شاعر کی طبیعت ممکن ہے حیات سے اسی وقت سیر ہو چکی ہو لیکن خود حیات ...

مزید پڑھیے

میری محسن کتابیں

(اس عنوان سے رسالہ الندوہ (لکھنؤ) میں ایک سلسلہ مضامین مختلف اصحاب کے قلم سے شائع ہو رہا ہے، ذیل کا مضمون مدیر صدق کے قلم سے اسی سلسلہ کی ایک قسط ہے) حکم ملا ہے ایک رند خراباتی کو، ایک گمنام اور بد نام، گوشہ نشین قصباتی کو کہ وہ بھی اہل فضل و کمال کی صف میں در آئے اور اپنا افسانہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 73 سے 77