مضمون

بلراج مینرا: ایک زندگی

بلراج مین را کی کہانی وہ میں نے 1996میں پڑھی تھی۔ میرے چند دوستوں نے بھی اس کہانی کا مطالعہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جے این یو کے کاویری ہاسٹل کے ایک کمرے میں اس کہانی کے معنی اور مفہوم کے سلسلے میں ہر شخص کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ جاڑے کی رات میں ایک نوجوان کو پوری دیوانگی کے ساتھ ...

مزید پڑھیے

راجندر سنگھ بیدی کی کچھ یادیں

راجندر سنگھ بیدی کے چھوٹے بھائی سردار ہربنس سنگھ آج کل ٹرائی سٹیٹ واشنگٹن ڈی سی کے اسی علاقے میں رہتے ہیں جہاں میں اقامت پذیر ہوں ادبی محفلوں اور جلسوں میں ان کے ساتھ اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے اور ہم دونوں ان کے مرحوم بھائی کے بارے میں اپنی اپنی یادوں کا تبادلہ کیا کرتے ...

مزید پڑھیے

پھول والوں کی سیر

امریوں میں پورا دن گزار کر جب آغا نواب مہرولی میں اپنے بالا خانے پر پہونچے تو سب تھک کر چور ہو رہے تھے۔ بڑے تو خیر بیٹھے سیر دیکھا کئے مگر بچوں نے کچھ کم ادھم مچائی تھی؟ جب رات کا کھانا کھا کر لیٹے تو ایسے گھوڑے بیچ کر سوئے کہ بس صبح کی خبر لائے۔ قطب صاحب میں ابھی بہت سی چیزیں ...

مزید پڑھیے

ساقی کا پہلا اداریہ (۱۹۳۰ء)

بنامِ شاہد نازک خیالاں عزیزِ خاطر آشفتہ حالاں اردو کو بہت پرانی زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، مگر اس تھوڑی سی عمر میں اس نے اتنا عروج حاصل کیا اور اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کی مثال السنۂ عالم میں نہیں ملتی۔ اس کا اقبال و رواج فی الحقیقت قابل رشک ہے۔ ہمارے ملک کی اور زبانوں کو اگر اس ...

مزید پڑھیے

ساقی کا دوسرا اداریہ (۱۹۴۸ء)

(کراچی سے شائع ہونے والے ساقی کا پہلا اداریہ)الحمد للہ کہ ساقی کی صورت دوبارہ دکھائی دی،گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگارلیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہاپورے ایک سال بعد ساقی کے چھپنے کا موقع آیا۔ اس تمام عرصے میں ساقی جاری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نامساعد واقعات نے ہمیشہ مایوس ...

مزید پڑھیے

اردو زبان کا مسئلہ

برادر مکرم طفیل صاحب۔ سلام مسنون تازہ ’’نقوش‘‘ میں آپ کا اداریہ ’’طلوع‘‘ پڑھا۔ آپ نے اس میں اردو کے ایک نہایت اہم مسئلے کو چھیڑا ہے۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے۔ خصوصاً میرے لئے کہ میرے بیان سے بعض آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ ہے۔ سچی بات کڑوی ہوتی ہے مگر ...

مزید پڑھیے

شام کی چہل پہل

جامع مسجد کے جنوبی رخ کی سیڑھیوں پر کوئی بازار نہیں تھا۔ اکثر فقیر اور کنگلے ان پر پڑے رہتے تھے۔ ایک مجذوب ہیں مادر زاد ننگے، نابینا ہیں، حافظ جی کہلاتے ہیں۔ خاک میں لوٹتے رہتے ہیں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا حافظ جی کو ایک ساہی دیکھا۔ انھیں دلی والے بڑا جلالی بتاتے تھے۔ طرح طرح کی ...

مزید پڑھیے

دلی کے چٹخارے

شاہ جہاں بادشاہ نے آگرہ کی مچ مچاتی گرمی سے بچنے کے لئے دلی کو حکومت کا صدر مقام بنانے کے لئے پسند کیا اور جمنا کے کنارے قلعہ معلیٰ کی نیو پڑی۔ یہاں ہو کا عالم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کے کنارے کنارے ہلالی شکل میں شہر آباد ہونا شروع ہو گیا۔ ہزاروں مزدور قلعہ کی تعمیر میں لگ ...

مزید پڑھیے

دلی کے دل والے

’’دلی کی دل والی، منھ چکنا پیٹ خالی۔‘‘ یہ جو مثل مشہور ہےتو اس میں بہت کچھ صداقت بھی ہے۔ روپے پیسے والوں کا تو ذکر ہی کیا؟ انھیں تو ہمہ نعمت چٹکی بجاتے میں مہیا ہو جاتی ہے۔ دلی کے غریبوں کا یہ حوصلہ تھا کہ نہوتی میں دھڑلَے سے خرچ کرتے، کل کی فکر انہیں مطلق نہ ہوتی تھی۔ کوڑی کفن ...

مزید پڑھیے

دلی کا آخری تاجدار

مرزا غالب نے کہا ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔ یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری ...

مزید پڑھیے
صفحہ 27 سے 77