عقل مند مسخرہ

مسخرہ تھا بادشہ کا اک غلام
ہو گیا تھا وہ بہت ہی نیک نام
خدمت مخلوق اس کا کام تھا
اور اس نیکی کا چرچا عام تھا
دیکھیے کرنا خدا کا کیا ہوا
ایک اس کا دوست غم میں پھنس گیا
رنگ لائی شاہ کی چشم عتاب
بے نوا پر ہو گیا نازل عذاب
مل چکا تھا حکم اس کو قتل کا
اب رہائی کا کوئی چارہ نہ تھا
موت کی ساعت نظر آئی قریب
مسخرے کے پاس پہنچا وہ غریب
کہہ سنایا اس کو اپنا ماجرا
شاہ والا جاہ ہے مجھ سے خفا
پھر سفارش کے لیے وہ مسخرہ
جلد تر دربار شاہی میں گیا
بادشاہ نے مسخرے کو دیکھ کر
کی بڑے غصہ سے اس پر بھی نظر
پھر کہا تیری نہ مانوں گا کبھی
تلخ کر رکھی ہے تو نے زندگی
ہر کسی کا تو بنا ہے غم گسار
پھر سفارش کا ہو کیوں کر اعتبار
میں کروں گا تیرے کہنے کے خلاف
کر نہیں سکتا قصور اس کا معاف
مسخرے نے عرض کی عالم پناہ
قول سے پھرتے نہیں ہیں بادشاہ
قتل ہو جائے یہ بد قسمت شتاب
کیجئے دل کھول کر اس پر عتاب
یہ عتاب شاہ جلد ہی دور ہو
اور دل سرکار کا مسرور ہو
بادشہ کو آ گئی اس پر ہنسی
پائی مجرم نے دوبارہ زندگی
مسخرے کی عقل پر سب شاد تھے
غم زدہ دل عیش سے آباد تھے
بچ گئی اک جان اس کی بات سے
ہو گیا بیکس رہا آفات سے