اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی

اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی
آپ کے بس میں علاج غم دوراں ہے کوئی


روکئے اس کو جو اس وقت غزل خواں ہے کوئی
جیل میں نغمہ سرائی کا بھی امکاں ہے کوئی


اپنی مرضی سے تو اگتے نہیں خود رو پودے
ہم غریبوں کا بہ ہر حال نگہباں ہے کوئی


زرد چہروں کو تبسم نے کیا ہے رسوا
ورنہ ظاہر بھی نہ ہوتا کہ پریشاں ہے کوئی


حرص دربان کو آقا کا مصاحب سمجھے
صبر آقا کو سمجھتا ہے کہ درباں ہے کوئی


چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی


مجھ سے کافر کے یہاں شادؔ مکمل سرقہ
عسس شہر بڑا صاحب ایماں ہے کوئی