اپنی تخلیق میں اپنا ہی ہنر جاگتا ہے

اپنی تخلیق میں اپنا ہی ہنر جاگتا ہے
وقت لگتا ہے مگر سچ کا اثر جاتا ہے


بات چھوٹی ہی اگر ڈھنگ سے کہہ دے کوئی
سننے والے میں تجسس کا اثر جاگتا ہے


شیشہ پیکر ہو تو پتھر سے نبھائے رکھو
یہ سلیقہ جسے آتا ہے وہ گھر جاگتا ہے


زندگی نام ہے جینے کا تو زندہ سب ہیں
پیار ملتا ہے تو خوابوں کا شجر جاگتا ہے


پیار کا اپنا مقدر ہے جدائی سیماؔ
ورنہ ہر رات ہی آنچل میں قمر جاگتا ہے