اپنی صورت کا ہی دیدار دوبارہ کر لیں
اپنی صورت کا ہی دیدار دوبارہ کر لیں
ڈوبتے چاند کا ہم پھر سے نظارہ کر لیں
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
شیخ جس عہد کی دیتا ہے مثالیں ہم کو
کیسے اس عہد کو ہم زندہ دوبارہ کر لیں
عمر بھر اہل طرب لوٹ کے ساحل کے مزے
کیا جواں مردی ہے طوفاں سے کنارہ کر لیں
آسمانوں پہ تو انسان نہیں رہ سکتے
جیسے ممکن ہو زمیں پر ہی گزارا کر لیں
اب تو بیمار محبت کی ہے حالت نازک
چارہ سازوں سے کہو وہ کوئی چارا کر لیں
جس کے ایماں میں ہی انساں سے ہو نفرت شامل
کس طرح ایسے ستم گر سے گزارہ کر لیں
اب تو اس شہر میں ایسا کوئی انسان نہیں
جس سے مل کر ہی کبھی ذکر تمہارا کر لیں
ڈوب جاتے ہیں گھڑی پل میں ستارے اسلمؔ
کس توقع پہ اسے آنکھ کا تارہ کر لیں