اپنی باہوں کو ہم نے پتوار کیا تھا
اپنی باہوں کو ہم نے پتوار کیا تھا
تب جا کر وہ خون کا دریا پار کیا تھا
پتھر پھینک کے لوگوں نے جب عزت بخشی
ہم نے اپنے ہاتھوں کو دستار کیا تھا
کون سے خواب نے رات اپنی آنکھیں کھولی تھیں
کس کی خوشبو نے دل کو بیدار کیا تھا
اس نے دل پر قبضہ کیا بن بیٹھا آمر
ہم نے جس کی شاہی سے انکار کیا تھا
بنتے گئے تھے اپنی ٹھوکر سے وہ رستے
جن رستوں کو تو نے کل دیوار کیا تھا
جن کو کبھی اک آنکھ نہ ہم بھائے تھے اخترؔ
ہم نے ان کی نفرت سے بھی پیار کیا تھا