امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا گٹھ جوڑ

          دنیا کے امن پسند انسانوں نے دوسری جنگ  عظیم کے انجام تک پہنچنے کے بعد بھی نصف صدی پل پل لرزہ براندام گزاری ہے۔ کیونکہ اس نصف صدی میں چاہے کیوبن میزائل بحران کی رات ہو یا    کوئی اور سوویت و امریکی کشیدگی کا دن، انسانوں کی آنکھوں میں جنگ، جنگ اور صرف جنگ کے سائے  لہراتے تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑے پیمانے پر لکھا جانے والا جنگ کا مخالف ادب بتاتا ہے، اس دنیا کے بیشتر انسان پر امن ماحول میں زندگی کا پہیہ چلانا چاہتے ہیں لیکن شاید یہ امریکہ کی وار انڈسٹری  بند کرنے کے مترادف ہے۔

            یہی وجہ ہے کہ انیس سو بانوے میں  سوویت یونین کا دھڑن تختہ کرتے ہی امریکہ نے اپنی  جنگی صنعت کو چلانے کے لیے نئے محاذوں کا بندوبست کر رکھا تھا۔  اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف بیانیہ مرتب کیا گیا ، کردار چنے گئے، بساط بچھائی گئی اور  آگ لگا دی گئی۔  آپ اس بات کا ثبوت چاہتے ہیں تو امریکہ کی  ہتھیار و جنگی ساز و سامان بنانے والی فیکٹریوں کے پورٹ فولیو دیکھ لیں، اگر تسلی نہ ہو تو پینٹا گون کے جرنیلوں کی جائیدادیں ملاحظہ کر لیں۔  یہ سب باتیں خود امریکی مصنفین کے کتب و جرائید بتا رہے ہیں۔

            بہر کیف، یہ سب تو تھا ہی لیکن اب  امریکی جنگی مشین کی سرخ آندھیاں ایک نیا نقارہ بجاتی نظر آ رہی ہیں۔  ہوا بتا رہی ہے کہ سرخ بادل بحر اوقیانوس کے پانیوں پر جمنے کا خطرہ ہے۔  اس کے لیے  چین کو وہ دیو بنایا جا رہا ہے جس سے انسانی اقدار، جمہوریت، شائستگی،  امن اور سب سے بڑھ کر  انسانی آزادی کو خطرہ ہے۔ یہ زور و شور سے دکھایا جا رہا ہے کہ چین ہانگ کانگ میں  جمہوریت و آزادی سلب کر رہا ہے، ترقی پذیر ممالک کو قرض  کے چنگل میں پھنسا رہا ہے، سنکیانگ  میں جور  و ستم کے باب رقم کر رہا ہے،    مشرق بعید کے کئی ممالک کے حقوق غصب کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کی نجی معلومات حاصل کر رہا ہے۔

            ایسا نہیں ہے کہ چین کے دامن پر یہ الزام بے بنیاد ہیں۔ چین خود امریکہ کی طرح طاقت کے نشے میں یا اپنے  دیگر مفادات کے حصول کی خاطر، ان سب جرائم کے کش لگا رہا ہے۔  لیکن بات یہ اہم ہے کہ امریکہ چین کے خلاف ان سب جرائم کی ایف آئی آر کاٹ کر کاروائی کیا تجویز کر رہا ہے؟

                        آج سے چار سال قبل امریکہ نے بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کو ملا  کر ایک ڈھیلا ڈھالا سا غیر رسمی  اتحاد بنایا۔ اس کو  کواڈ کا نام دیا گیا۔ بظاہر اسے   چار ممالک کے مابین دفائی ہم آہنگی بڑھانے کے لیے گفت و شنید کا آغاز قرار دیا گیا۔ لیکن عالمی حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین متفق ہیں کہ یہ اتحاد چین کے خلاف بنایا گیا لیکن آسٹریلیا اور جاپان کے چین کے ساتھ اقتصادی مفادات کے باعث اسے غیر رسمی رہنے دیا گیا ۔ چین نے بھی اس اتحاد کو خشمگی بھری نگاہوں سے دیکھا اور اسے اپنے خلاف دشمنی جانا۔ امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ  ٹرمپ نے اس اتحاد کو نیٹو کی طرز پر استوار کر کے  چین  کو گھیرنا چاہا، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر خاطر  خواہ نتائج اخذ نہ ہوئے۔

            خیر کواڈ اتحاد والی بیل منڈیر سے صرف اٹکا کر ڈونلڈ ٹرمپ   چلے گئے اور ان کے مخالف جو بائڈن میدان میں آ گئے۔ گو کہ انہوں نے  آتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی کئی پالیسیوں سے یو ٹرن لیا لیکن چین  سے سینگ پھنسا کر امریکی جنگی  مشینری کو تیل باہم پہنچانے کی پالیسی جوں کی توں  رہی۔  اب جیسے ہی انہوں نےافغانستان میں پھنسی ٹانگ اکتیس اگست کو نکالی تو پندرہ ستمبر کو سرد جنگ کے خطرے کو ہوا دے دی۔  ایک سہ ملکی نیا اتحاد بنایا برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر۔ جس میں  آپس میں دفائی، حفاظتی اور سفارتی تعلقات کو  نئے  رنگ دینے کی بات کی ۔  اسے بھی  کواڈ  کی طرح کسی ملک کے خلاف نہیں گردانا گیا  لیکن  سب کو نظر آ رہا  ہے کہ ہوا کا رخ کیا ہے۔ بحر حال اس اتحاد پر  چین  کی  غصے سے بھری پھنکاریں تو متوقع تھیں لیکن   فرانس کا اس سب میں تلملانا بہت دلچسپ ہے۔  وہ اس لیے کہ امریکہ نے آسٹریلیا  کو اس اتحاد  پر محبت بھرا  تحفہ  نیوکلیر پاور سب میرین کی صورت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب آسٹریلیا نیوکلیر پاور سب میرین رکھنے والا دنیا کا ساتواں ملک ہو گا۔  لیکن یہاں یہ سمجھنا اہم ہے کہ فرانس کو اس ڈیل سے کیا مسئلہ ہے؟

            دراصل دو ہزار سولہ سے آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان سب میرین کی خریداری کی بات چل رہی تھی۔ فرانس کو آسٹریلیا کو بارہ ڈیزل اور بجلی سے چلنے والی روایتی سب میرین تیار کر کے دینا تھیں۔ اس ڈیل کی قیمت اسی سے نوے بلین ڈالرز تھی۔ لیکن اب جب آسٹریلیا کو نیوکلیر سب میرین مل رہی ہے تو فرانس کے اربوں ڈالر تو مارے گئے نا۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ کیسے مفادات  کے حصول کا کھیل بنا کسی اصول کے  کھیلا جا رہا ہے۔  فرانس اپنی وار مشینری کو تیل دینا چاہ رہا تھا سب میرین بیچ کر، امریکہ کی وار مشین نے اس کے منہ کا نوالہ چھین لیا۔

            فرانس کے مفادات تو کچلے گئے لیکن دیکھنا یہ اہم ہے کہ امریکہ کی جنگی مشین اپنے اتحادیوں کے ہمراہ اگلا کیا قدم اٹھاتی ہے؟  ہم تو صرف دعا گو ہیں کہ افک پر گہرے ہوتے سرد جنگ کے بادل چھٹ جائیں۔  کچھ ایسا ہو کہ امریکی جنگی مشین کی خون ہشام آنکھیں بند ہو جائیں۔ ہم دعا کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟