عکس کوئی کسی منظر میں نہ تھا

عکس کوئی کسی منظر میں نہ تھا
کوئی بھی چہرہ کسی در میں نہ تھا


صبح اک بوند گھٹاؤں میں نہ تھی
چاند بھی شب کو سمندر میں نہ تھا


کوئی جھنکار رگ گل میں نہ تھی
خواب کوئی کسی پتھر میں نہ تھا


شمع روشن کسی کھڑکی میں نہ تھی
منتظر کوئی کسی گھر میں نہ تھا


کوئی وحشت بھی مرے دل میں نہ تھی
کوئی سودا بھی مرے سر میں نہ تھا


تھی نہ لذت سخن اول میں
ذائقہ حرف مکرر میں نہ تھا


پیاس کی دھند بھی ہونٹوں پہ نہ تھی
اوس کا قطرہ بھی ساغر میں نہ تھا